Maktaba Wahhabi

135 - 434
ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کے صرف انہی پہلوؤں کا تذکرہ کریں گے جو آگے چل کر لوگوں کے ذہنوں کو صاف کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں۔ وگرنہ حقیقی بات یہ ہے کہ حضرت ذو النورین اسلام کے دور اول سے یعنی اس دن سے کہ جب آپ نے سرور گرامی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی آپ کی زندگی کے آخری لمحات تک اور پھر نبی کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کائنات سے رخصت ہو جانے کے بعد صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں پھر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں اور پھر اپنے زمانہ خلافت میں آپ نے جو کارہائے نمایاں سرانجام دئیے وہ تاریخ کا ایک انتہائی روشن اور جگمگاتا ہوا باب ہے۔ لیکن نہ ان ساری چیزوں کے تذکرے کا وقت ہے اور نہ ہی اس وقت ان ساری چیزوں کا احاطہ مقصود ہے۔ غرض و غایت صرف یہ ہے کہ ان ایام میں جن ایام میں حضرت حسین کی یاد کے نام پر مجالس میں ان اسلاف کو نشانہ مشق ستم بنایا جاتا ہے جن کا واقعہ کربلا کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں بلکہ بیشتر شخصیتیں جن کا ذکر ان مجالس میں کیا جاتا ہے وہ وہ ہیں جو اس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے سے کئی برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ اس دنیا میں موجود ہی نہیں تھے اور اس مناسبت سے بھی کہ انہیں ایام میں جو ایام ابھی گزرے ہیں۔ ذی الحجہ کے آخر میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ ان دونوں مناسبتوں کی بنیاد پر ہم نے اس بات کو مناسب جانا اور ضروری خیال کیا کہ ان واقعات کو جن کو لوگوں کی نظروں سے چھپایا جاتا ان سے گریز کیا جاتا ان سے روگردانی برتی جاتی اور خود ساختہ واقعات کو گھڑ کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہ کیچڑ اچھالا جاتا ہے ایک ان واقعات کو جو حقیقی واقعات ہیں اجاگر کیا جائے اور دوسرا جو طعن کرنے والے طعن توڑتے ہیں ان کے مطاعن کی حقیقت کو جانچا اور پرکھا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی کی صاحبزادی کے صاحبزادے ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لحاظ سے ان کا قریبی رشتہ ہے کہ حضرت عثمان کا ننھیال حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ہے۔ آپ کے ننھیالی بنو ہاشم کے لوگ ہیں۔ وہی لوگ جن کے اندر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوتی ہے
Flag Counter