Maktaba Wahhabi

228 - 434
اسلحہ بھی دے کے بھیجا۔ تم کٹ جانا نبی کے داماد پہ آنچ نہ آنے دینا اور جب حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ چلے‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے‘ زبیر کے بیٹے‘ عبد اللہ ضی اللہ عنہ ‘ طلحہ ضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد ضی اللہ عنہ ‘ سب چلے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا۔ کہنے لگے میں تمہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی قسم دے کے کہتا ہوں واپس چلے جاؤ۔ میں اپنے لئے کسی کا خون بہانا گوارہ نہیں کرتا۔ پلٹے۔ دشمنوں نے حملہ کیا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا علی رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا۔ او تیری کتاب کا حوالہ۔ اگر اس کی امارت نہیں مانتا اگر عثمان رضی اللہ عنہ کی امامت نہیں مانتا اگر اس سے محبت نہیں کرتا تو اس شہادت پہ خوش ہونا چاہئے یا ناراض؟ خوش ہونا چاہئے دشمن مارا گیا۔ کیا ہوا؟ سن لو! کائنات کے رب کی قسم ہے۔ دنیا کا کوئی بندہ آئے۔ حوالے کو جھٹلا کے دکھلائے۔ کیا ہوا ؟ لطم الحسن و ضرب صد ر الحسین زندگی میں پہلی مرتبہ علی رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھایا اور حسن کے چہرے پہ تھپڑا مارا حسین رضی اللہ عنہ کے سینہ میں مکہ مارا۔ اس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا داماد شہید ہو گیا تم کیسے واپس آگئے ہو ؟ زندگی میں کبھی حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ نے مارنا گوارا نہیں کیا کہ رسول کے بیٹے ہیں لیکن جس دن عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اس دن حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کو بھی معاف کرنا گوارا نہ کیا۔ اگر ان کی خلافت کا مسئلہ ہوتا تو نہ صرف یہ کہ حسین کی طرح خروج کرنا چاہئے تھا بلکہ ان کی موت پہ خوش ہوتے۔ لیکن علی رضی اللہ عنہ نے کیا کیا؟ اپنے بیٹوں کو فاطمہ ضی اللہ عنہا کے جگر گوشوں کو مارا۔ مروج الذہب مسعودی کا حوالہ۔ کوئی ماں کا لال اٹھے اور اللہ تو گواہ ہے آج بھی اگر علی رضی اللہ عنہ کی حکومت آجائے وہ عثمان رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والوں کو اسی طرح مارے جس طرح اس نے اپنے بچوں کو مارا تھا جنہوں نے حفاظت میں کوتاہی کی تھی۔ اور سن لو! اللہ گواہ ہے کوئی شخص اس وقت تک جنت کا وارث نہیں ہو سکتا‘ مومن کہلانے کا حق نہیں رکھ سکتا جب تک کہ صدیق ضی اللہ عنہ ‘ فاروق ضی اللہ عنہ ‘ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم نہ کر لے۔ اس لئے جو
Flag Counter