اسلاف ملت کے خلاف ہرزہ سرائی کریں کہ جن کا اگر وجود نہ ہوتا تو نہ جانے آج ہم لوگ مسلمان بھی ہوتے کہ نہ ہوتے اور جن لوگوں نے اپنی جوانیوں کی قوتوں اور طاقتوں اور اپنی زندگی بھر کی کوششوں اور کاوشوں اور اپنے عمر بھر کے اثاثے کو اللہ کی راہ میں اس لئے لٹایا کہ اللہ کا دین بارآور ہو جائے اور کائنات میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا شہرہ پھیل جائے ان کے خلاف گفتگو کی جاتی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے لئے بہانہ بنایا جاتا ہے حضرت حسین ابن علی کی شہادت کو اور حیرانگی کی بات یہ ہے تعجب کی بات یہ ہے کہ نام لیا جاتا ہے حسین کی شہادت کا اور مجلسوں میں ذکر ان لوگوں کا کیا جاتا ہے جو نہ صرف یہ کہ شہادت حسین میں ان کا کوئی کردار نہیں انہوں نے کسی قسم کا کوئی اس بارے میں اپنے اعمال اور افعال اور اقوال سے حصہ نہیں لیا۔ بلکہ ان لوگوں کے خلاف گفتگو کی جاتی ہے جو اس واقعہ کے رونما ہونے سے نصف صدی پہلے اس کائنات سے رخصت ہو چکے تھے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ نہیں۔ اگر شہادت حسین کا تذکرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کے خلاف یا ان لوگوں کے متعلق گفتگو کی جاتی جن کا کسی نہ کسی طریقے سے اس واقعہ میں ہاتھ ہے تو بات سمجھ میں آسکتی تھی کہ بھائی چند لوگوں کا یہ نقطہ نگاہ ہے کہ فلاں اور فلاں شخص نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت میں کسی نہ کسی طور سے حصہ لیا لیکن تعجب بالائے تعجب اور حیرت در حیرت اور افسوس در افسوس کہ ان کا نام تو نہیں لیا جاتا۔ نام ان کا لیا جاتا ہے جو حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے واقعہ سے برسوں پہلے اس دنیا سے ہی رخصت ہو چکے تھے۔ اس دنیا میں بھی موجود نہ تھے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اس واقعہ کے چالیس برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اس واقعہ سے انچاس برس پہلے رخصت ہو چکے تھے حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ کربلا کے اس واقعہ سے تیس سال پہلے اپنے رب کے پاس جا چکے تھے۔ طلحہ زبیر عبد الرحمن بن عوف ابو عبیدہ ابن جراح سعد ابن ابی وقاص خالد ابن ولید حتی کہ امیر معاویہ رضوان اللہ علیھم اجمعین وہ بھی جب یہ واقعہ رونما ہوا ہے اس کائنات میں موجود نہیں تھے۔ کوئی بھلا مانس پوچھنے والا نہیں ہے کہ بندگان |