Maktaba Wahhabi

365 - 434
رسوائی اور بدنامی سے اس کو وہ جوتوبہ کی توفیق میسر آگئی ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ اب میں بدنام تو ہو ہی گیا ہوں اب اس کے سوا میرے بارے میں اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ چلو جو کرنا ہے اب کرتے رہو۔ اس لئے کہ گناہوں سے انسان کو جو چیز بہت زیادہ باز رکھتی ہے وہ اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ لوگوں کو میرے اس گناہ کا علم نہ ہو جائے لوگوں کی نگاہوں سے میں مخفی رہ جاؤں لوگوں کی نظروں سے میرا یہ عیب چھپا رہے اور اگر اس کو یہ پتہ چل جائے کہاب عیب کا تو سب کو پتہ چل ہی گیا ہے گناہ کا سارے لوگوں کو علم ہو ہی گیا ہے توپھر وہ گناہ کرتے ہوئے اس قدر ہچکچاہٹ اور تذبذب اپنے اندر نہیں پاتا جس قدر کہ تذبذب اور ہچکچاہٹ اسے اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کہ وہ یہ جانتا ہے کہ میری گناہگاریکا علم کسی دوسرے کو نہیں۔ دوسرا اس سلسلے میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بہت زیادہ تلقین کی اور قرآن حکیم میں بھی اس کا بہت زیادہ حکم دیا گیا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ گناہ کی تشہیر سے لوگوں کے دلوں کے اندر سے گناہ کے خلاف نفرت ختم ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے کہ اگر ہر روز کسی پاکباز انسان کے سامنے کسی شخص کے برے فعل کا تذکرہ کیا جائے تو ابتداء میں اسے اس کے ذکر سے بڑی نفرت اور قباحت محسوس ہو گی۔ لیکن آہستہ آہستہ جب تکرار کے ساتھ اس عیب کا ذکر اس کے سامنے ہو گا تو اس کے دل سے اس گناہ اور عیب کے خلاف جو حقارت اور نفرت موجود ہو گی اس میں کمی آتی جائے گی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ وہ خود اپنی زبان سے اس گناہ کا ذکر کرتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا۔ پہلے اسے لوگوں سے سنتے ہوئے بھی حیا آتی تھی اب اسے خود تذکرہ کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس طرح یہ گناہ یہ برائی اور یہ عیب زبانی طور پر لوگوں کو گوارہ ہوتا جائے گا اور پھر اللہ معاف کرے ایسا وقت بھی آجائے گا کہ تذکرہ کرتے ہوئے جو عیب محسوس نہیں کرتا وہ اس کا ارتکاب کرتے ہوئے بھی کوئی حیا محسوس نہ کرے گا۔ اس طرح گناہ معاشرے میں سرطان کی طرح پھیل جاتا ہے۔ قرآن مجید میں رب ذو الجلال نے جہاں گناہ کی مذمت کی ہے وہاں گناہوں کا ذکر کرنے والوں کی بھی بڑی مذمت کی۔ فرمایا اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
Flag Counter