Maktaba Wahhabi

24 - 53
جو پیسے ا سکو ملتے تنگی ترشی سے وہ انہی پیسوں میں اپنا گذر بسر کرتا تھا۔اور اگر کسی دن لکڑیاں نہ ملتیں یا نہ بکتیں تو اس دن سارے گھر کو فاقے میں رات بسر کرناپڑتی تھی۔ اس طرح پریشانی اور تنگدستی کی زندگی بسر کرتے جب ایک زمانہ گذر گیا تو مدینہ کی بودو باش سے لکڑہارے کی طبیعت اچاٹ ہوگئی وہ دیس چھوڑ کر پردیس چلا گیا کہ شاید پردیس ہی میں پہنچ کر قسمت کی برگشتگی اور زمانے کی گردش سے نجات مل جائے(میں یہاں رک کر کہونگا کہ جب کونڈوں کا افسانہ بنانا ہی تھا تو ظاہر ہے لکڑہارے کو آگے پیچھے کرنا ہوگا اور اس پر پریشانیوں کے پہاڑ ڈالنے ہونگے تاکہ کونڈوں کی کرامت صحیح واضح ہواور افسانہ چمک جائے)۔لیکن عسرت اور تنگدستی نے وہاں بھی اسکا پیچھا نہ چھوڑا وہی جنگل سے کاٹ کاٹ کر لکڑیاں لانا اور پیٹ پالنا جو دیس میں اسکا معمول تھا وہی پردیس میں بھی رہا اور اس نے اسی حال میں پردیس میں رہ کر اپنی زندگی کے بارہ سال گزار دیئے۔(اب ذرا ٹھہر کر ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کہ انسان تھا کہ جن تھا بارہ سال بغیر گھر والوں کے اس نے گذارے اور ظاہر ہے نہ اسکا وہاں کوئی گھر ہوگا نہ دوست احباب ہونگے کیونکہ وہ تو اجنبی تھا اب کیا کیا جائے بہرحال کہتے ہیں مثل مشہور ہے کہ(جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے) آگے چلئے ! اب پردیس میں رہ کر اسے گھر یاد آتا تھا بچے یاد آتے تھے اور بیوی یاد آتی تھی لیکن نہ کبھی پاس پیسہ ہوا کہ کچھ بچوں کو بھیجتا اور نہ شرم او رندامت نے اسے اسکی ہمت دی کہ گھر واپس آتا ادھر جب گھر سے لکڑہارے کے لاپتہ ہوجانے پر گھر والوں کا کوئی سہارا نہ رہا تو لکڑہارے کی بیوی نے وزیر کے محل میں حاضری دیکر
Flag Counter