اگر مقصود نصیحت ہو تو یہ غیبت نہیں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک شخص نے کسی کو کام پر رکھنا چاہا اورمجھے معلوم ہے کہ یہ شخص کئی اعتبار سے اس کام کے لیے موزوں نہیں ہے تو کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ اس شخص کے کچھ عیوب و نقائص اسے بتادوں ، کیا یہ غیبت تو شمار نہیں ہوگی ؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اگر مقصود نصیحت اور خیر خواہی ہو تو یہ غیبت نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «الدِّینُ النَّصِیحَةُ» قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: «لِلَّہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُولِہِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِینَ وَعَامَّتِہِمْ» (صحیح مسلم ، الایمان ،باب بیان ان الدین النصیحۃ، ح: 55) ’’دین خیر خواہی کا نام ہے ، ہم نے کہا کس کے لیے خیر خواہی تو آپ نے فرمایا : اللہ کے لیے ، اس کے رسول کے لیے ،مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے ، اور ان کے عوام کے لیے ۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بیان فرمایا ہے اور صحیح بخاری و مسلم میں حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی سے روایت ہے کہ میں نے نماز قائم کرنے ، زکوٰۃ ادا کرنے اورہر مسلمان کی خیر خواہی پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی (صحیح بخاری ، الایمان ، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الدین النصیحہ ، حدیث 57 وصحیح مسلم ، الایمان باب بیان ان الدین النصیحہ ، حدیث :56) اس مضمون کی او ربھی بہت سی احادیث ہیں ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج4ص476 |
Book Name | اجتماعی نظام |
Writer | متفرق |
Publisher | متفرق |
Publish Year | متفرق |
Translator | متفرق |
Volume | متفرق |
Introduction | فتاوے متففرق جگہوں سے ، مختلف علما کے، مختلف کتابوں سے نقل کئے گئیے ہیں۔ البتہ جمع و ترتیب محدث ٹیم نے ، تصحیح و تنقیح المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر نے کی ہے |