Maktaba Wahhabi

123 - 2029
داڑھی کے سفید بال اکھیڑنا جائز نہیں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا داڑھی  میں سفید بالوں کا اکھیڑنا جائز ہے ؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! حدیث صحیح میں ثابت ہے  ، عمر و بن شعیب   سے روایت   ہے  وہ اپنے والد اور وہ اپنے  دادا سے  روایت کرتے ہیں  وہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’سفید با ل مت نوچو ، یہ مسلمان کا نو ر ہیں  جس  کا اسلا م میں ایک با ل سفید ہو تا ہے  تو ا للہ تعالیٰ  اس کے لیے  اس کے عوض  ایک نیکی  لکھ دیتاہے  اور ایک گناہ معاف ہو جاتا ہے  اور ایک درجہ بلند ہو جاتا ہے ۔(ابو داود (791/2 (بر قم (4202) ابن ماجہ (204/2) برقم (3721 ) اور المشکاۃ (372/2)  میں ہے  اور اس کی سند صحیح ہے ۔ اس حدیث شریف  میں سفید بال کے اکھاڑنے  کی ممانعت ہے  تو مسلمان کے لئے جائز نہیں  کہ وہ امر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے اپنا نور بجھائے ۔ اس سے ظاہری  نور (سفید بال ) ختم ہو جاتا ہے  اور باطنی نور (اتباع کا نور ) بھی بجھ جاتا ہے۔ اس حدیث  صحیح  کے بعد  ابن عابدین  کے قول  کا  کوئی اعتبار نہیں  جو انہوں نے  ردالمختار  میں اکھیڑنے  کے جواز کا لکھا ہے ۔ اور سفید داڑھی  کو مہندی سے رنگنا یا  مہندی اور وسمہ ملا کر رنگنا افضل ہے جیسے اس میں  بکثرت احادیث آئی ہیں ۔ لیکن سفید بالوں  کو سیاہ  رنگ دینا جائز نہیں ہے  جیسے کہ  صحیح  حدیث میں آیا ہے  جسے ابوداود اور نسائی نے  بیان کیاہے اور وہ المشکاۃ (382/2)  میں ہے : ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے  وہ کہتے ہیں کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’آخری زمانے میں لوگ ہونگے جو یہ سیاہ رنگ دینگے  گویا کہ وہ کبوتروں  کے پوٹے ہیں  انہیں جنت کی خوشبو نصیب  نہ ہوگی ۔ اور صحیح مسلم (199/2 ) میں جابر سے مروی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ رضی اللہ عنہ مکہ کے دن لائے گئے ان کا سر اور داڑھی  ثعامہ  کے پھولوں  کی طرح سفید تھے  تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اسے بدل دو لیکن  سیاہ کرنے سے بچو ‘‘۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :’’داڑھی رنگنا مستحب ہے  اور سیاہ رنگ دینا حرام ہے ‘‘۔اور اسی طرح  المجموع(294/1) میں  کہا ہے :’’داڑھی اور سر کو کالا رنگ دینے  کی مذمت  پر اتفاق  کیا ہے  درست یہی ہے کہ  یہ حرام ہے  اور اسے صراختا  حرام کہنے والوں  میں حاوی بھی ہیں  امام  نووی کہتے ہیں : اس کی حرمت کی دلیل جابر کی حدیث ہے  جو ابھی ذکر ہوئی ہے  ہیثمی نے المجمع (161/5) میں وارد کیا ہے  ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا :آخری  زمانے میں لوگ ہونگے   جو اپنے بالوں کو سیاہ کریں  گے  اللہ تعالی ٰ  ان پر نظر رحمت  نہیں فرمائے گا ۔ اسے طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے  اور اس کی سند اچھی ہے  ابو الدرداء  سے مرفوعا روایت ہے :’’ جو سیاہ رنگ دے گا  اللہ تعالیٰ اس کا چہرہ قیامت کے دن سیا ہ کر دے گا ‘‘۔ اسے روایت کیا ہے طبرانی نے  اس میں  وضین بن عطاء  ہے جس کی  احمد ، ابن معین ، اور ابن حبان  نے توثیق کی ہے  اور جو ان سے مرتبے  میں کم ہیں  اور وہ اسے ضعیف کہتے  ہیں  اور باقی راوی ثقہ ہیں  حافظ نے (292/2 )  میں کہا ہے :’’ اس کی سند کمزور ہے ‘‘۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  وہ کہتے ہیں  کہ ہم  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے  تو آپ کے پاس  یہودی آئے ، آپ نے ان کی  سفید داڑھیاں  دیکھیں تو فرمایا :’’تم انہیں کیوں نہیں بدلتے ‘‘۔تو کہا گیا  کہ یہ مکروہ ہے  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تم تو بدلو اور سیاہی سے بچو ‘‘۔ طبرانی نے اسے اوسط  مین  میں روایت کیا ہے ۔ اس میں  ابن لہیہ  ہے جو متابعات میں حسن الحدیث ہے ۔ اور یہ حدیث حسن ہے ۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مرفوعا  روایت ہے :’’ زردی مومن کا خضاب ہے  اور سرخی مسلمان  کا خضاب  ہے اور سیاہی کافر کا خضاب  ہے ‘‘۔ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے ۔ھیثمی کہتے ہیں  : اس میں ایسا راوی ہے جسے میں  نہیں پہچانتا۔ میں کہتا ہوں : یہ احادیث جو سمجھ لے  تو وہ تردد نہیں کرے گا  کہ کالا خضاب  ہر کسی کے لئے قطعی حرام ہے ۔ اور یہ اہل علم  کی ایک جماعت  کا قول  ہے  جیسے کہ تمام المنہ ص (83) میں کہا ہے ۔ اسی لئے  ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیب السنن (   (103/6 میں کہا ہے : صحیح بات یہ ہے کہ ان احادیث میں کسی بھی وجہ سے کوئی اختلاف نہیں ہے جن کے ساتھ بڑھاپےکی سفیدی بدلنے  سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے دو چیزیں ہیں : (1)۔اکھاڑنا ۔(2) ۔سیا ہ رنگ دینا ۔  اور جس کی اجازت دی وہ کالے  رنگ کے علاوہ  مہندی یا زرد رنگ  دینا ہے ، اور اسی پر صحابہ کرام کا  عمل ہے ۔ اور کہا ہے ’’سیاہ حضاب  کو اہل علم  کی جماعت  نے مکروہ  کہا ہے  اور بلا شک یہی صحیح ہے ، مذکورہ دلائل  کی وجہ سے ۔ امام  احمد رحمہ اللہ   کو کہا گیا ، آپ سیا ہ خضاب کو مکروہ سمجھتے ہیں  تو کہا :’’ ہا ں ، اللہ کی قسم !۔ بعض دوسرے علماء  اس کی رخصت دیتے ہیں  ان میں اصحاب  ابی حنیفہ  بھی ہیں  اور یہ حسن و حسین رضی اللہ عنہماسے بھی روایت کیا جاتا ہے لیکن ان سے  اس کے ثبوت  میں اعتراض  ہے اور اگر ثابت بھی ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے  میں کسی کا قول  کچھ بھی نہیں ہے ۔ آپ کی  سنت زیادہ اتباع کی حقدار  ہے  اگرچہ  مخالفت کر نے والے مخالفت کریں ۔ تو سید سابق  کا فقہ السنہ  میں کالے خضاب  کی اجازت دینا غلط ہے  اور  اسی طرح  ان کا سیاہ  کے علا وہ  خضاب  کو عادت  کہنا بھی غلط ہے ۔ بلکہ یہ ثابت سنت مستمرہ  ہے ۔ اور ابو البرکات  نے المنتقیٰ بشرح نیل الاوطار (144/1)  میں  باب  باندھا ہے :’’ باب ہے سفید بالوں  کو مہندی  اور وسمے  وغیرہ سے بدلنا  اور سیاہ رنگ کی کراہت ‘‘ پھر اس کے  بارے  میں احادیث  ذکر کی ہیں ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ الدین الخالص ج1ص409
Flag Counter