Maktaba Wahhabi

235 - 2029
(206)دس سال سےزائد یا کم عمر بچوں کو تعلیم ،تادیب ،کسی خطاء ،جرم یانماز چھوڑنے پرمارنا ناجائز ہےیانہیں ؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ  کیا فرماتےہیں علماء شرع متین اس مسئلہ میں کہ بچوں کی (  خواہ دس سال سےزائد یاکم ) تعلیم یاتادیب یاکسی خطاء اورجرم یاصلوۃ پرمارنا ناجائز ہےیانہیں ؟ اگر مارنا ناجائز ہےتودلیل اگر مارنا جائز ہے تومارنے کی کیا حد ہے اورکس عمر والے کواورکس جرم پر؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! جب  بچے اوربچیاں دس برس کی عمر کوپہنچ جائیں توان کونماز کےچھوڑنے  اورترک کرنے پرایسی مارمارنی جائز ہےجوسخت تکلیف ومشقت کاباعث نہ ہو اورمارنے میں چہرے سے بچنا چاہیے  اورایسی مارسے بھی بچنا ضروری ہےجس سےکسی عضو کوخاص نقصان پہچ جائے ۔’’ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: «مُرُوا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاةِ وَہُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِینَ، وَاضْرِبُوہُمْ عَلَیْہَا، وَہُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ»( ابوداؤد ( کتاب الصلاة باب متی یؤمرالغلام بالصلاة (495 )1/) وفی الباب عن سبرة بن معبد الجہنی ، اخرجہ الترمذی (  کتاب الصلوة باب متی یؤمرالصبی بالصلاة (704)2/259 )وابواؤد ( کتاب الصلاة باب متی یؤمرالغلام بالصلاة ( 494 )1/ ) ، قال العلقمی فی شرح الجامع الصغیر : ’’ إنما أمر بالضرب لعشر ،لأنہ حد یتحمل فیہ  الضرب غالباًُ ، والمراد بالضرب ضرباغیرمبرح ، وأن یتقی الوجہ فی الضرب،،انتہی . بخاری ومسلم ( بخاری ، کتاب الوتر باب ماجاء فی الوتر 2/12، کتا ب الوضو ء باب قراءة القرآن بعد لحدث 1/ 53 ، ومسلم کتاب صلاة المسافرین وقصرہا ، باب الدعا فی صلاة اللیل (763 ) 1/ 6 ). وغیرہ کی ایک طویل حدیث میں ہےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما (جن کی عمر آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت کل 13برس کی تھی ) فرماتےہیں :’’ فقمت إلی جنبہ إذا أغفیت أخذ بشحمة أذنی ،، ( فتح الباری 2/483 ) علامہ عینی ﷫ شرح بخاری میں لکھتے ہیں :’’ وفیہ جواز عرک أذن الصغیر ، لأجل التأدیب أو لأجل المحبة ،، اور حافظ الدنیا امام ابن احجر حدیث کی شرح کےذیل میں فرماتےہیں ( 2؍485):’’ وَفِیہِ صِحَّةُ صَلَاةِ الصَّبِیِّ وَجَوَازُ فَتْلِ أُذُنِہِ لِتَأْنِیسِہِ وَإِیقَاظِہِ وَقَدْ قیل إِن المتعلم إِذا تُعُوہِدَ بِفَتْلِ أُذُنِہِ کَانَ أَذْکَی لِفَہْمِہِ  ،،انتہی ، قال القاری : ’’ وفتلہا إما لینبہہ علی مخالفة السنة ، أو لیزدادتیقظہ لحفظ تلک الأفعال ، أو لیزیل ماعندہ من النعاس ،، . ترک صلوۃ  کےعلاوہ دوسری بڑی خطاوؤں اورجرموں پرشرط مصلحت و مقتضائےوقت اس عمر کےبچے اوربچیوں کومعمولی طورپران کے مربی مارسکتےہیں ،لیکن واضح ہوکہ تمام بچوں کی تعلیم وتربیت یکساں نہیں ہوتی ہے۔بعض بچے مارسے خراب ہوجاتےہیں اور بعض بغیر مارے  ہوئے درست ہوتےہیں ، ان امور کی رعائت اتالیق  ومعلم اورنگران ومربی والدین اوراستاد کی صلاحیت اوراپنی لیاقت پرموقوف ہے۔  (کتبہ  عبیداللہ المبارکفوری الرحمانی المدرس بمدرسہ دارالدیث الرحمانیہ بدہلی ۔  ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 320
Flag Counter