Maktaba Wahhabi

1253 - 2029
خود کشی السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ  خود کشی کے بارے میں کیا حکم ہے ؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! خود کشی انسان کا اپنے آپ کو قصدا و ارادہ کےساتھ قتل کرنا ، خواہ اس کامطب کوئی بھی ہو ، حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے اور یہ حسب ذیل ارشاد باری تعالی کےعموم میں داخل ہے : ﴿وَمَن یَقتُل مُؤمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزاؤُہُ جَہَنَّمُ خـٰلِدًا فیہا وَغَضِبَ اللَّہُ عَلَیہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذابًا عَظیمًا ﴿٩٣﴾... سورة النساء ’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصدا مار ڈالے تو اس کی سزا دوزخ ہے ، جس میں وہ ہمیشہ (جلتا ) رہے گا اور اللہ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کےلیے اس نے بڑا (سخت ) عذاب تیار کر رکھا ہے ۔‘‘ اور سنت سے یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : ’’جو شخص اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کرے تو اسے  اس کے ساتھ آتش جہنم میں عذاب دیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ۔‘‘(صحیح البخاری ، الطب ، باب شرب السم والدواء بہ ، وما یخاف منہ والخبیث ، حدیث : 5778 وصحیح مسلم ،الایمان باب بیان عظ تحریم قتل الانسان ۔۔۔۔الخ ، حدیث : 109 ) جو شخص اللہ تعالیٰ یا مخلوق کی طرف سے پہنچنے والی کسی مصیبت کی وجہ سے خود کشی کرتا ہے ، تو وہ گویا اس مصیبت کو برداشت نہیں کرتا اور خود کشی کرلیتا ہے ، اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی دھوپ سے بچہنے کے لیے آگ کاسہارا لے کیونکہ خود کشی کرکےوہ بد سے بد ترین حالات کی طرف منتقل ہو جاتا ہے ۔ اگر وہ صبر سے کام لیتا ہے تو اللہ تعالی اس مصیبت کے برداشت کرنے کے لیے اس کی مدد فرماتا اور پھر ہمیشہ ایک جیسی صورت حال تو نہیں رہتی بلکہ جیساکہ کہا گیا ہے ۔ ع ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج4ص541
Flag Counter