Maktaba Wahhabi

88 - 122
یہ بات تو درست ہے کہ اگر واقعتا کسی جگہ سفید لباس یا عمامہ یا ٹوپی پہن کر جانے سے کسی مدرس کے سامعین اس کی باتوں کا اثر لیں گے تو اس چیز کا لحاظ رکھنا دین کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہے۔لیکن ہم پھریہی کہیں گے کہ اگر مقصود سامعین پر اپنی شخصیت کا اثر ڈالنا ہے تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو توجہ سے سنیں تو آپ کے بعض سامعین ایسے بھی ہوں گے کہ عمامہ یا سفید لباس پہننے کی بجائے آپ تھری پیس سوٹ میں ان سے خطاب کریں گے توآپ کی بات زیادہ توجہ سے سنیں گے اور ایک عام مولوی سمجھتے ہوئے آپ کو اجنبی نگاہ سے نہ دیکھیں گے۔جہاں تک دین کا معاملہ ہے تو یہ بات ثابت ہے کہ سفید لباس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند کیا ہے اور اس کے پہننے کی ترغیب دی ہے ‘لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سفیدکے علاوہ رنگوں کے لباس بھی پہنتے تھے بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ ’’حبرۃ‘‘لباس پسند تھا۔بعض شارحین بخاری نے اس کا ترجمہ دھار ی دار یمنی لباس جبکہ بعض علماء نے یمنی سبز چادر کیا ہے۔(۱۷۳)ہوا یہ کہ سفید لباس والی روایت تو نقل ہوئی اور لوگوں میں عام بھی ہو گئی لیکن دھاری دار یا سبز کپڑوں والی روایت عام نہ ہوئی ‘جس سے لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ شایدصرف سفید لباس پہننا ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا۔ ضعیف و موضوع روایات کا درجہ ضعیف اورموضوع روایت سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت ثابت نہیں ہوتی۔البتہ ایک ضعیف روایت اگر ’حسن لغیرہ‘ کے درجے کو پہنچ جائے تو اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ثابت ہوتی ہے۔ ٭ ایک صاحب ایک دفعہ دوران گفتگو فرمانے لگے کہ فجر کی نماز کے بعد سونا ممنوع ہے ‘آپؐ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اس کی دلیل یہ روایت ہے: ((اِذَا صَلَّیْتُمُ الْفَجْرَ فَلَا تَنَامُوْا عَنْ طَلَبِ اَرْزَاقِکُمْ))(۱۷۴) ’’جب تم فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنے رزق کو تلاش کرنے کی بجائے سو نہ جاؤ۔‘‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت’ ضعیف‘ ہے۔علامہ البانی ؒ نے اس روایت کو ’ضعیف‘ کہا ہے(۱۷۵)۔بعض اصحاب کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ ضعیف ہے تو کیا ہے ‘روایت تو ہے نا؟ضعیف کی محدثین نے سترہ کے قریب اقسام بیان کی ہیں اور ان میں سے ایک موضوع بھی ہے۔علماء نے اس مسئلے میں مستقل کتابیں اور مقالے لکھے ہیں کہ ضعیف حدیث دینی مسائل میں حجت نہیں ہے۔ہم یہاں پر اس کے دلائل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اتنی بات کہیں گے کہ اگر یہ حضرات ضعیف حدیث کی کتابوں میں موجود ضعیف روایات کو دیکھ لیں تو ان کو احساس ہو گا کہ مطلقاًضعیف روایات کو قبول کرنے کا اصول بنانے سے یہودیت ‘ عیسائیت ‘ ہندو مت اورا سلام کا ایک ملغوبہ تو وحدتِ ادیان کی شکل میں تیار ہو سکتا ہے لیکن اللہ کا وہ خالص دین جو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیاگیا‘اپنی اصل حالت میں برقر ار نہیں رہے گا۔جب یہ حضرات ضعیف احادیث کو
Flag Counter