Maktaba Wahhabi

35 - 58
دونوں کے اخراجات ،رہائش ،شب بسری،غرضیکہ تمام امور میں ممکن حد تک عدل کرے کیونکہ ان میں سے ایک کی جانب میلان رکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء یوم القیامة وشقه مائل» (سنن ابی داؤد) "جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوا ہو گا۔" البتہ وہ امور جن میں عدل ممکن نہ ہو ،جیسے محبت اور دل کی خوشی تو ان میں خاوند پر کچھ گناہ نہیں کیونکہ یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ فرمان الہی ہے: [وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَاۗءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ [1] ترجمہ: اگر تم چاہو بھی تو اپنی بیویوں کے درمیان عدل نہ کر سکو گے۔(سورۃ النساء،آیت 129) یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے درمیان شب بسری کی باری مقرر کر رکھی تھی۔آپ عدل کرتے تھے اور فرماتے تھے: «اللهم هذا قسمی فیما أملك فلا تلمنی فیما تملك ولا أملك» "اے اللہ !یہ میری تقسیم ایسے معاملے میں ہے جس میں میرا اختیار ہے اور جس بات میں تیرا اختیار ہے ،میرا نہیں،اس پر مجھے ملامت نہ فرمانا۔" لیکن اگر کوئی بیوی شب بسری کے معاملے میں اپنی باری خوشی سے دوسری بیوی کو ہبہ
Flag Counter