Maktaba Wahhabi

307 - 548
((اَلْفَمُ وَ الْفَرْجُ۔)) [1]منہ اور شرم گاہ۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے عمل کے بارے میں پوچھا جو جنت میں لے جائے اور جہنم سے دور رکھے تو آپ نے دین کے سر، اس کے ستون، اور اس کے کوہان کی بلندی بتلانے کے بعد فرمایا: ((ألا أخبرک بملاک ذلک کلہ۔))’’کیا میں تمھیں ایسی بات نہ بتلا دوں جس پر ان سب کا دارو مدار ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: (( کف علیک ہذا۔)) ’’اس کو روکے رکھو‘‘ انھوں نے کہا: کیا ہم زبان سے جو بات کہتے ہیں اس پر بھی ہماری گرفت ہوگی؟ آپ نے فرمایا: ((ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ یَا مَعَاذُ وَ ہَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلَی وُجُوْہِہِمْ أَوْ عَلَی مَنَاخِرِہِمْ إِلَّا حَصَائِدُ اَلْسِنَتِہِمْ۔))[2] ’’تیری ماں تجھے گم پائے اے معاذ! (یہ بددعا نہیں عربی محاورہ ہے) جہنم میں لوگوں کو ان کی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتیاں ہی منہ کے بل یا ناک کے بل گرائیں گی۔‘‘ ابن عبید کا قول ہے: ’’جو شخص بھی اپنی زبان کا خیال رکھتا ہے تو یہ چیز اس کے دوسرے اعمال کی درستی کا سبب بنتی ہے۔‘‘[3] ابن الکاتب کا قول ہے: ’’جب دل میں خوف الٰہی ہوتا ہے تو زبان سے کام ہی کی بات نکلتی ہے۔‘‘[4] امام اوزاعی کا قول ہے: ’’عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے میرے ایک خط میں لکھا: اما بعد! جو موت کو بکثرت یاد کرتا ہے وہ دنیا کے معمولی حصے پر راضی ہوجاتا ہے جو اپنی گفتگو کو اپنا عمل سمجھتا ہے وہ صرف مفید باتیں کرتا ہے، والسلام۔‘‘ [5] حسن بن علی رضی اللہ عنہما اپنی گفتگو کو اپنا عمل سمجھتے تھے، اس لیے اکثر چپ رہتے تھے۔ ۱۳۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی عزت افزائی: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے غلام حرملہ سے مروی ہے کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے مجھے علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے
Flag Counter