Maktaba Wahhabi

432 - 548
۹۔یزید بن معاویہ کی جانب سے آئے ہوئے مال کو خرچ کردینا: یزید بن معاویہ نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے پاس بطور ہدیہ بہت سارا مال بھیجا، آپ نے اسے اہل مدینہ میں تقسیم کردیا اور گھر کچھ نہ لے گئے، اس بارے میں عبید اللہ بن قیس الرقیات نے کہا: و ما کنت إلا کالأغر بن جعفر رأی المال لا یبقی فأبقی لہ ذکرا[1] ’’اے ابن جعفر! آپ اس معزز شخص کی طرح ہیں جس کے خیال میں مال باقی نہیں رہتا، اس خیال کے باعث اس نے اپنی یاد کو باقی رکھا۔‘‘ جس وقت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما یزید کے پاس آئے تو اس نے آپ کو بیس لاکھ دینے کا حکم دیا، امام ذہبی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: یہ کوئی بڑی چیز نہیں، یہ دنیاوی بادشاہ کا انعام ہے اور یہ انعام ایسے شخص کے لیے تھا جو خلافت کا اس سے زیادہ حقدار تھا۔[2] ۱۰۔عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے لیے ایک بدوی کی دعا: ایک بدوی نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے لیے دعا کی: اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی مصیبت میں نہ مبتلا کرے جس پر آپ صبر نہ کرسکیں اور نہ آپ کو ایسی نعمت سے نوازے جس کا آپ شکر نہ ادا کرسکیں۔[3] ۱۱۔وہ میرا مال تھا جس میں میں نے فیاضی کی: عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کو بھاؤ میں ایک درہم کم کراتے دیکھا گیا تو ان سے کہا گیا: آپ ایک درہم کم کرانے میں لگے ہیں جب کہ آپ اتنا اتنا مال خرچ کردیتے ہیں، آپ نے کہا: وہ میرا مال تھا اس میں میں نے فیاضی کی، یہ میری عقل ہے جس کی وجہ سے میں بخیل بن رہا ہوں۔[4] ۱۲۔یہ ایسے آدمی ہیں جو چاہتے ہیں کہ لوگ بخیل ہوجائیں، احسان کی بارش کرتے رہو: بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے یہ شعر پڑھا: إن الصنیعۃ لا تکون ضیعۃ حتی یصاب بہا طریق المقنع ’’احسان نفع بخش نہیں ہوسکتا، تاآنکہ اطمینان بخش جگہ پر کیا جائے۔‘‘ اس پر محمد بن عبداللہ مہرانی نے کہا: یہ ایسے آدمی ہیں جو چاہتے ہیں کہ لوگ بخیل ہوجائیں، احسان کی بارش
Flag Counter