Maktaba Wahhabi

161 - 645
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں : افلا ک کی حرکت علت اولیٰ کے ساتھ تماثل و تشابہ کی رہین احسان ہے۔جیسے مأموم اپنے امام کی ؛ اور مقتدی اپنے پیشوا کی اتباع کرتا ہے۔ ان کے استدلال کی انتہا یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ وجود عالم کی شرط ہے اور وہ عالم کو اسی طرح متحرک رکھتا ہے، جیسے معشوق عاشق کو۔ اس کو ایک مثال کے ذریعہ ذہن نشین کر سکتے ہیں ، مثلاً ایک شخص لذیذ کھانے کو دیکھ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھائے یا محب محبوب کو دیکھ اس کی طرف حرکت کرے، ظاہر ہے کہ دونوں مثالوں میں حرکت کی علت لذیذ کھانا اور محبوب کا وجود ہے۔ مندرجہ بالا بیان اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ فلاسفہ کے نزدیک حرکت افلاک کا محدث و خالق فلک کے سوا اور کوئی نہیں ، جس طرح قدریہ کے نزدیک حیوان کے افعال کا خالق بھی حیوان ہی ہے۔ بنا بریں فلاسفہ کے نزدیک فلک ایک بڑے حیوان کی حیثیت رکھتا ہے۔بلکہ ان کا کہنا ہے کہ فلک علت اولی کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے حرکت کرتا ہے۔ کیونکہ علت اولی اس کا معبود اور محبوب ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ فلسفہ یہ حسب طاقت الٰہ سے تشبہ ہے اور درحقیقت ان فلسفیوں کے نزدیک اس عالم کا نہ کوئی رب ہے اور نہ الٰہ اور نہ ہی باقی جہانوں کا کوئی رب ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ لوگ بس یہ ثابت کرتے ہیں کہ الٰہ عالم کے وجود کی شرط ہے اور مخلوق کا کمال اس کے ساتھ مشابہ ہونے میں ہے۔ان کے نزدیک الوہیت کا تصور بس یہی ہے اور یہی ربوبیت ہے۔ اسی لیے ان کا قول یہود و نصاری کے قول سے بھی بدتر ہے۔ یہ معقول و منقول دونوں سے ان سے کہیں زیادہ دُور ہیں ۔ اس کی تفصیل اپنے مقام پر موجود ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ فلاسفہ جملہ حوادث عالم کے بارے میں قدریہ کے ہم نواہیں اور بنا بریں [وہ بنی آدم میں سب سے بڑے گمراہ بلکہ ہر]شر و فساد کی جڑ ہیں ۔ فلاسفہ قدریہ کی طرح حوادث کو جسمانی طبائع کی جانب منسوب کرتے ہیں اور ان کے خالق و موجد کو تسلیم نہیں کرتے، زیادہ سے زیادہ وہ خالق کائنات کو وجود عالم کی شرط قرار دیتے ہیں ۔یہ حوادث کا کوئی محدث ثابت نہیں کرتے۔ فلاسفہ کی جہالت و ضلالت: ان لوگوں کے قول کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ رب العالمین کے وجود کا انکار کرتے ہیں ۔پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو رب العالمین ثابت نہیں کرتے؛بلکہ ان کے عقیدہ کی انتہاء و غایت اسے اس عالم کے وجود کے لیے شرط قراردینا ہے۔ اور حقیقت میں یہ رب العالمین کو معطل کہتے ہیں ۔ جیسے ان فلاسفہ کا بھی عقیدہ ہے جوفلک کو واجب الوجود بنفسہٖ ٹھہراتے ہیں ۔ البتہ یہ لوگ علت کو ثابت کرتے ہیں ۔ یا تو علت غائیہ کو جو ان کے قدماء کے نزدیک ہے، یا علت فاعلیہ کو جو ان کے متاخرین کے نزدیک ہے۔ جس کی عند التحقیق کوئی حقیقت نہیں ، اس لیے ان میں سے طبائعیوں نے اس پر انکار کیا ہے۔ جب یہ فرض کیا کہ فلک اپنے اختیار سے حرکت کرتا ہے اور اللہ اس کی حرکت کا خالق نہیں تو اس بات پر کوئی دلیل
Flag Counter