Maktaba Wahhabi

438 - 645
تھا اور ان کو راضی نہ کیا۔ مقام حیرت ہے کہ جب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اشراف قریش اور انصار عرب کے بڑے بڑے قبائل کو راضی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو کیا پڑی تھی کہ ایک انیس سالہ مفلس وقلاش اور بے یارومدد گار نوجوان کی خوشنودی حاصل کرنے کی سعی کرتے۔اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہ ہوتی اور آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدم نہ کیا ہوتا تو آپ بھی دوسرے فقراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مانند ہوتے ۔ [اشکال ] :’’ اگر شیعہ کہیں کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محب تھے۔‘‘[اس لیے انہیں راضی کیاگیا] [جواب ]: تم دوسری جانب یہ بھی تو کہتے ہو کہ: ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و وصیت کو بدل ڈالا تھا۔ اور آپ کے وصی پر ظلم کیااور ان کا حق غصب کرلیا۔جو کوئی صحیح وصریح حکم میں نافرمانی کرے؛کھلے ہوئے واضح عہد کو بدل ڈالے ‘ ظلم وسرکشی کرے ؛ اور دوسروں کو مغلوب کرلے ۔اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی پرواہ نہ کرے ؛ اور نہ ہی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کسی تعلق و قرابت کا خیال کرے ‘ وہ اسامہ جیسے انسان کا اتنا خیال رکھے گا؟ حتی کہ آپ کو راضی کرنے کیلئے چل کر جائے۔حالانکہ اس نے[اسامہ کی ماں ] ام ایمن رضی اللہ عنہا کی گواہی رد کی ہو؛ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غضبناک کیا ہو اور آپ کو تکلیف دی ہو؛ حالانکہ آپ اس بات کی زیادہ حق دار تھیں کہ آپ کو راضی کیا جاتا ۔جو کوئی اتنا کچھ کرسکتا ہو تو اس کو کون سی ایسی حاجت پڑی ہے کہ وہ اسامہ رضی اللہ عنہ کو راضی کرے ؟اس لیے کہ کسی شخص کو یا تو اس کے دین کی وجہ سے راضی کیا جاتا ہے یا پھر دنیا کی وجہ سے ۔ اگر اس کے پاس اتنا دین بھی نہ ہو جو کہ راضی کرنے والے انسان کیلئے ترغیب کا سبب بن سکے ؛ اورنہ ہی انہیں دنیا کی کسی چیز میں اس کی کوئی ضرورت ہو۔ توپھر کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ انہیں راضی کرنے کی کوشش کی جائے ؟رافضی اپنی جہالت اور دروغ گوئی کی وجہ سے ایسے تناقضات بیان کرتے ہیں جن کا متضاد اور جھوٹ ہونا بالکل ظاہر ہوتا ہے ۔ بیشک ان لوگوں کے اقوال میں انتہائی سخت اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِِنَّکُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ٭یُؤْفَکُ عَنْہُ مَنْ اُفِک﴾ [الذاریات ۸۔۹]۔ ’’ بلا شبہ تم ایک اختلاف والی بات میں پڑے ہوئے ہو۔ اس سے وہی بہکایا جاتا ہے جو(پہلے سے) بہکاہوا ہو ۔‘‘ فصل:....فاروق ابن خطاب رضی اللہ عنہ پر رافضی غصہ [اعتراض]: شیعہ قلم کار لکھتا ہے: ’’ اہل سنت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فاروق کے نام سے یاد کرتے ہیں ، مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لقب سے ملقب نہیں کرتے ؛ حالانکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں فرمایا تھا:’’ھٰذَا فَارُوْقُ اُمَّتِیْ‘‘(یہ میری امت کا فاروق ہے)۔ جو حق اور باطل کے مابین فرق کرنے والا ہے۔‘‘حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہم منافقین کوحضرت علی رضی اللہ عنہ کے بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے ۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی]
Flag Counter