Maktaba Wahhabi

705 - 692
کرے۔اگر ’’مدعا علیہ‘‘ غائب ہو تو اس سے خود حاضر ہونے یا اپنا وکیل بھیجنے کا مطالبہ کرے۔ 5: حدود کے علاوہ دیگر معاملات میں ایک قاضی کی تحریر،دوسرے قاضی کی طرف معتبر سمجھی جاتی ہے،وہ اس پر دو گواہوں کی گواہی ثبت کرے۔ 6: مدعی جب تک دعویٰ تحریری شکل میں پیش نہ کرے،قاضی دعوے کی سماعت نہ کرے،مثلاً:مدعی کہتا ہے:میں نے فلاں سے کچھ لینا ہے یا میرا خیال ہے کہ میں نے اس سے اتنی چیز لینی ہے۔بلکہ وہ دعوے کا تعین کرے اور حتمی انداز میں مدعیٰ علیہ پر تحریری دعویٰ کرے۔ 7: قاضی کا ظاہری فیصلہ نفس الامر میں کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں بنا سکتا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ،وَإِنَّکُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ،وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَنْ یَّکُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِہِ مِنْ بَعْضٍ،فَأَقْضِيَ عَلٰی نَحْوِ مَا أَسْمَعُ،فَمَنْ قَضَیْتُ لَہُ بِحَقِّ أَخِیہِ شَیْئًا فَلَا یَأْخُذْہُ،فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَہُ قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ)) ’’میں انسان ہوں،(غیب نہیں جانتا)تم میرے پاس جھگڑے لاتے ہو،ہو سکتا ہے کہ تم میں سے بعض اپنی دلیل پیش کرنے میں تیز طرار ہو اور میں اپنی شنید کے مطابق فیصلہ کر دوں،چنانچہ جس کے لیے میں اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ میں نے اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ دیا ہے۔‘‘[1] 8: دونوں کے ثبوت میں اگر تعارض ہے اور کسی ایک کو دوسرے پر کوئی ترجیح حاصل نہیں ہے تو متنازع چیز کو دونوں میں تقسیم کر دے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فیصلہ ثابت ہے۔[2] شہادت کا بیان: ٭ شہادت کی تعریف: کسی نے جو دیکھا یا سنا،اسے صحیح طور پرقاضی کے سامنے بیان کرنا ’’شہادت‘‘ہے۔ ٭ شہادت کا حکم: جس طرح گواہی ادا کرنا ’’فرض کفایہ‘‘ہے،اسی طرح ’’امر واقعہ‘‘کا گواہ بننا بھی ’’فرض کفایہ‘‘ ہے،اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ﴾
Flag Counter