Maktaba Wahhabi

332 - 465
کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع کرتے ہوئے تنبیہ فرمائی کہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں ’غلو ‘نے ہی تباہ وبرباد کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم لوگ بھی ’غلو ‘کروگے تو تباہی سے دوچار ہوگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا : (( إِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِی الدِّیْنِ فَإِنَّمَا أَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِی الدِّیْنِ)) [1] ’’دین میں غلوکرنے سے بچتے رہنا، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کودین میں غلو نے ہی تباہ کیا۔‘‘ اسی طرح ’ غلو ‘ کا مترادف ایک اور لفظ ہے اور وہ ہے : تنطُّع۔جس کا معنی ہے :انتہائی گہرائی میں جا کر اپنے اقوال وافعال میں حدود سے تجاوز کرنا اور خواہ مخواہ دین میں تشدد اورسختی کرنا۔ اور دین میں اِس قسم کی سختی بھی ہلاکت وبربادی کا موجب بنتی ہے۔جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( ہَلَکَ الْمُتَنَطِّعُونَ )) قَالَہَا ثَلَاثًا[2] ’’ دین میں سختی کرکے حدود سے تجاوز کرنے والے ہلاک ہوگئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار ارشاد فرمائے۔ اور’غلو ‘ کی کئی صورتیں ہیں، چند اہم صورتیں اور ان کا شرعی حکم ہم قرآن وحدیث کی روشنی میں آپ کی خدمت میں ذکر کرتے ہیں۔ 1۔انبیائے کرام علیہم السلام اور صالحین میں غلو کرنا جیسا کہ یہود ونصاری نے انبیائے کرام علیہم السلام میں غلو کیا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَ قَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ﴾ [3] ’’اور یہودیوں نے کہا کہ عزیر ( علیہ السلام ) اللہ کے بیٹے ہیں۔اور نصاری نے کہا کہ مسیح ( عیسی ابن مریم علیہ السلام ) اللہ کے بیٹے ہیں۔‘‘ تو عزیر علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دینا ’ غلو ‘ ہے۔کیونکہ اللہ تعالی اولاد سے پاک ہے۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالی نے اِس عقیدے کی تردید کی ہے۔بلکہ اسے سخت بے ہودہ بات اور بہت ہی بھاری گناہ قرار دیا ہے۔
Flag Counter