Maktaba Wahhabi

222 - 244
عبداللہ ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہلے ہی اللہ اور رسول کے نام کے سواکچھ بھی موجود نہ تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی پیش کر دی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 30 ہزار کی جمعیت کے ساتھ ہجوم آتش بار کے طوفانوں میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، سواریاں اس قدر کم تھیں کہ اٹھارہ اٹھارہ آدمیوں کے حصے میں ایک ایک اونٹ آیا۔ سامان رسداس قدر قلیل تھا کہ مسلمان درختوں کے پتے کھاتے تھے اور قیصر روم کے مقابلے پر منزل بہ منزل چلے جاتے تھے۔ عبداللہ ذوالبجادین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولولہ جہاد سے لبریز تھے۔ شوق شہادت سے سرشار تھے۔ اسی دھن میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں آئے اور کہنے لگے : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! آپ دعا فرمائیے کہ میں راہ اللہ میں شہید ہو جاؤں۔ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:”تم کسی درخت کا چھلکا اتار لاؤ۔ ’’عبداللہ درخت کا چھلکا لے کر خوشی خوشی حاضر خدمت ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چھلکا لیا اور اسے عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بازو پر باندھ دیا اور زبان مبارک سے فرمایا:”خداوندا!میں کفار پر عبداللہ کا خون حرام کرتا ہوں۔ ‘‘ عبداللہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کچھ حیران سارہ گئے اور کہنے لگے :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تو شہادت کا آرزومند ہوں۔‘‘فرمایا جب تم راہ اللہ میں نکل پڑے، پھراگربخارسے بھی مر جاؤ تو تم شہید ہو۔ ‘‘ اسلامی فوج تبوک پہنچی تھی کہ عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوسچ مچ بخار آ گیا اور یہی بخار ان کے لئے پیغام شہادت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کے انتقال کی خبر پہنچائی گئی تو آپ صحابہ کے ساتھ تشریف لائے۔ ابن حارث مزنی سے روایت ہے کہ رات کا وقت تھا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں چراغ تھا۔ حضرت
Flag Counter