Maktaba Wahhabi

43 - 82
’’اور بے شک تو بہت بڑے عمدہ اخلاق پر ہے۔‘‘ وہ تعلیم قرآن اور لوگوں کے ساتھ تعلقات کا مرجع و مصدر ہے۔ لوگ قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس سے رجوع کرتے ہیں۔ لہٰذا اس پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ حسن تدبیر اور اچھے اخلاق سے پیش آئے۔ کیونکہ جو شخص بھی لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اسے ناپسندیدہ امور کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف معلم، قاضی اور فقیہ بنا کر بھیجا تو انہیں وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ((وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔))[1] ’’لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا۔‘‘ لوگوں کے ساتھ تعلقات قایم کرنے اور انہیں دین اسلام کی دعوت دینے کے لیے حسن اخلاق کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ورنہ لوگ آپ سے متنفر ہو جائیں گے اور آپ کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ متعدد اہل علم حقوق اللہ کا تو اہتمام کرتے ہیں مگر حقوق العباد کو یا تو کلیۃً ترک کردیتے ہیں یا اس میں کوتاہی کرتے نظر آتے ہیں۔ جو انتہائی نامناسب طرزِ عمل ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا خیال رکھنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے۔ اور یہی انبیاے کرام وصدیقین کا اسوہ اور شیوہ ہے۔ [2] اہل علم نے چند آداب و اخلاق ذکر کیے ہیں جن سے ہر مدرس و معلم قرآن کا متصف ہونا از حد ضروری ہے: ’’وہ شریعت میں وارد ان تمام اخلاق حسنہ، صفات حمیدہ اور خصال جمیلہ سے متصف ہو، جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے راہنمائی فرمائی ہے۔ مثلاً وہ طلب دنیا پر حریص نہ ہو، دنیا اور اہل دنیا سے مستغنی ہو، جودوسخا کا
Flag Counter