Maktaba Wahhabi

112 - 135
اسی طرح علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ نے مطابقت رسم میں ﴿وَلَوْ تَقْدِیْرًا﴾ کے لفظ سے وسعت پیدا کر دی ہے۔ اور اس میں ﴿مَالِکِ﴾ (الفاتحۃ: ۴) بالالف جیسی قراء ت کو داخل کر دیا ہے، جو ﴿مَلِکِ﴾ کے رسم میں احتمال رکھتی ہے۔ ۳۔ امام ابن مجاہد رحمہ اللہ کی شرط (کہ اس قاری کی قراء ت پر اس کے شہر والوں کا اجماع ہو) امام مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ کی شرط (کہ عامۃ الناس کا اس پر اجماع ہو) سے کچھ وسیع ہے کیونکہ امام مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ عامۃ الناس سے، اہل کوفہ وبصرہ یا اہل مکہ و مدینہ کا اتفاق مراد لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ امام ابن خالویہ رحمہ اللہ نے نقل مسلسل سے صحت سند کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور غالب گمان یہی ہے کہ امام ابن مجاہد رحمہ اللہ اور امام مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ نے بھی ایک شہر یا دو شہروں کے رہنے والوں کے اجماع اور عامۃ الناس کے اتفاق سے صحت سند کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ ان دونوں نے اپنی اپنی کتب میں تدوین قراءات کے ساتھ روایت کا بھی التزام کیا ہے کیونکہ ایک شہر، دو شہروں یا عامۃ الناس کا کسی قراء ت پر اجماع و اتفاق کرنا تواتر یا کم از کم ’’مفید علم‘‘ شہرت کا باعث ہے۔ مذکورہ کلام سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قراءات متواترہ کے درج ذیل تین ارکان ہیں: (۱) صحت سند (۲) مطابقت رسم (۳) موافقت عربیت میں نہیں سمجھتا کہ اب ہمیں علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ کے ذکر کردہ أرکان کی حد بندی کی کوئی ضرورت ہے۔ خصوصاً جب سے انہوں نے عربیت اور رسم کے دائروں میں وسعت پیدا کر دی ہے۔ آگے چل کر ہم ان تینوں ارکان کی تفصیلی وضاحت کریں گے۔ اس سے پہلے ان دو معیارات کی طرف اشارہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، جو امام ابن مجاہد رحمہ اللہ کے زمانہ ہی میں ان کے معاصرین کی طرف سے سامنے آئے۔ وہ دونوں درج ذیل ہیں: ۱۔ امام ابن شنبوذ رحمہ اللہ (ت ۳۲۷ھ) کا معیار: (ا) صحت سند (ب) موافقت عربیت ۲۔ امام ابن مقسم رحمہ اللہ (ت ۳۵۴ھ) کا معیار: (ا) مطابقت رسم (ب) موافقت عربیت
Flag Counter