Maktaba Wahhabi

67 - 135
اس مسئلہ میں کسی مقبول نتیجہ تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے دلائل کو پیش کرکے ان کا مناقشہ کیا جائے۔ علامہ خوئی ’’قراءات اور قرآن مجید دو متغایر حقیقتیں ہیں‘‘ والے قول کے ثبوت پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ((اِنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْ ہٰؤُ لَآئِ الْقُرَّآئِ (یَعْنِی السَّبْعَۃَ) یَحْتَمِلُ فِیْہِ الْغَلَطُ وَالْاَشْتِبَاہُ، وَلَمْ یَرِدْ دَلِیْلٌ مِنَ الْعَقْلِ وَلَا مِنَ الشَّرْعِ عَلٰی وُجُوْبِ اتِّبَاعِ قَارِیٍٔ مِنْہُمْ بِالْخُصُوْصِ، وَقَدِ اسْتَقَلَّ الْعَقْلُ وَحُکْمُ الشَّرْعِ بِالْمَنْعِ عَنِ اتِّبَاعِ غَیْرِ الْعِلْمِ)) [1] ’’ان قراء سبعہ میں سے ہر ایک سے غلطی اور اشتباہ کا احتمال ہے، اور ان قراء میں سے مخصوص طور پر کسی ایک قاری کی اتباع کے وجوب پر کوئی عقلی یا شرعی دلیل وارد نہیں ہے۔ لہٰذا عقل اور حکم شرعی بغیر علم کے کسی کی اتباع کی ممانعت پر قائم ہیں۔‘‘ لیکن یاد رہے کہ جن قراء سبعہ کی طرف علامہ خوئی نے اشارہ کیا ہے، ان کی قراء ت کوئی خبر واحد نہیں ہے، بلکہ متواتر اور مستفیض ہے، اور متواتر ومستفیض سے علم ضروری حاصل ہوتا ہے۔ میرے خیال کے مطابق اس قول کا اطلاق شاید قرائے سبعہ کی اسناد پر ہوتا ہے، جو امام ابن مجاہد رحمہ اللہ نے ذکر کی ہیں، اور ان میں کم راویوں کو نقل کرنے پر ہی اکتفاء کر لیا ہے۔ آگے یہ بحث آئے گی کہ وہ امام ابن مجاہد رحمہ اللہ کا اجتہاد اور اختیار محض ہے، ممکن ہے انہوں نے کم راویوں کا تذکرہ آسانی کی غرض سے کیا ہو۔ قراء ت کے متواتر یا مستفیض ثابت ہو جانے کے بعد اس قسم کے احتمالات تلاش کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ نیز یاد رکھیں کہ جب ہم کسی قراء ت کو روایت آحاد ثابت کر لیتے ہیں تو بھی راوی میں غلطی اور اشتباہ کا احتمال ہمیں اس سے روایت لینے سے منع نہیں کرتا، اگر وہ ثقہ ہو… اور اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو تمام روایات آحاد باطل ہو جاتی ہیں اور سنت نبوی معطل ہو
Flag Counter