Maktaba Wahhabi

83 - 135
کی روشنی میں ان قواعد نحویہ کی اصلاح فرما دی ہے۔ [1] علاوہ ازیں ابیاری نے اپنی اس رائے کی بنیاد قراء ت میں خط مصحف کے اختلاف پر رکھی ہے، اور یہی شبہ معروف مستشرق گولڈ زیہرنے وارد کیا ہے، اس کا جواب اور اس پر تفصیلی نقد آگے ’’اختلاف القراءات وأسبابہ‘‘ کی فصل میں آئے گا۔ اِنْ شَائَ اللّٰہُ۔ جبکہ جمہور کا مذہب … جس پر اب ہم قائم ہیں، کیونکہ جن اسباب کی بناء پر ان شرائط کو وضع کیا گیا، وہ اب بھی باقی ہیں… یہ ہے کہ ہر وہ قراء ت جس کے بارے میں یقینی طور پر ثابت ہو جائے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ہے، یا آپ کے سامنے پڑھی گئی اور آپ نے اسے ثابت رکھا ہے، اگرچہ اس میں آخری دو شرائط (موافقت عربیت اور مطابقت رسم) موجود نہ ہوں، ہم اس کو غیر قرآن نہیں کہہ سکتے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ قرآن میں غیر قرآن نہیں پڑھتے تھے۔ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قراءات شاذہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر واحد کے ذریعے منقول ہیں، اس سے اتنا تو ضروری علم حاصل ہوتا ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان شاذ قراءات کی تلاوت کی ہے، اگرچہ وہ معین نہیں ہیں، پس وہ قراءات متواتر ہیں، اگرچہ کسی شخص کے ساتھ متعین نہیں ہیں، اب ان کو کیسے شاذ کا نام دیا جاسکتا ہے، حالانکہ شاذ متواتر نہیں ہوتی۔‘‘[2] لیکن یاد رہے کہ خبر واحد، قطعیت کا فائدہ نہیں دیتی، الا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی قرینہ ملا ہوا ہو جو علم مفید کا فائدہ دے، لہٰذا خبر واحد سے قرآن ثابت نہیں ہوتا۔ا ور اگر اس کے ساتھ کوئی ایسا قرینہ ملا ہوا ہو، جو فعلی یا تقریری طور پر اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونے کی وجہ سے اس کی قطعیت کو واجب کر دے، تو وہ قرآن ہے۔ مگر شاذ کی قراء ت نہیں کی جائے
Flag Counter