Maktaba Wahhabi

39 - 417
ثابت ہے جیسے فقہائِ احناف میں قاضی خاں و طحطاوی وغیرہ اور شوافع میں رافع وغیرہ کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس کا عدد ثابت مانتے ہیں ''۔انتہی بلفظ رکعات صفحہ 15،16،17۔ دیکھئے مولانا مئوی نے کتنی ''احتیاط'' برتی ہے۔علماء اسلام کی دونوں رائیں آپ کے سامنے رکھدی ہیں۔کسی رائے کی بابت اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں دیا۔کسی کو راجح مرجوح تک نہیں کہا۔میدان مناظرہ میں یہ ''احتیاط'' بڑے ضبط و ہمت کی بات ہے،مولانا سن لیں کہ بہر رنگ کہ خواہی جامہ می پوش من اندازِ قدت رامی شناسم ہم خوب سمجھتے ہیں کہ یہ دام ہمرنگ زمین صرف اہلحدیثوں کا شکار کرنے کے بچھایا گیا ہے کہ بایں دام بر مرغ وگر نہ کہ عنقا را بلند است آشیانہ پسِ منظر آئیے اب ہم آپ کو اس کا پسِ منظر بتائیں۔قصہ یہ ہے کہ تعداد تراویح کے مسئلہ میں اہل حدیث کا اصل زور اسی بات پر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے بسند صحیح صرف آٹھ ہی رکعات ثابت ہیں۔اس لئے وہ بیس رکعات کو خلفاء راشدین کی سنت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ منشاء کیا ہے؟ اس پس منظر کو سامنے رکھ کر اس بات پر غور کیجئے کہ مولانا نے جو ''اہل
Flag Counter