مطہرات میں مکمل عدل قائم فرماتے، اور ساتھ ساتھ مستقل یہ دعا کرتے رہتے: ’’أللھم ھذا قسمی فیما أملک فلا تؤاخذنی فیما تملک ولاأملک‘‘[1] یعنی:اے اللہ!یہ میری تقسیم ہے ،جس پر مجھے کنڑول حاصل ہے،پس اس معاملہ میں میری پکڑ نہ کیجیو،جس کا تو مالک ہے اور جو میرے اختیار میں نہیں ہے۔ شریعتِ مطہرہ نے ہمیشہ عدل واعتدال برتنے کی تلقین کی ہے،اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: [ اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى ][2] ترجمہ:اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ نیز فرمایا:[وَاَقْسِطُوْا۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ][3] ترجمہ:اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان مروی ہے: ’’إن المقسطین عنداللہ علی منابر من نور،الذین یعدلون فی حکمھم وأھلیھم وما ولوا‘‘[4] |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |