باربارپڑھی جاتی ہے،گویا صراطِ مستقیم کی ہدایت کی بالاصرار وبالتکرار دعا کی جاتی ہے،اور اس دعا سے قبل اللہ تعالیٰ کےدربار میں انتہائی قوی وسیلے پیش کیے جاتے ہیں،شیخ الاسلام الثانی علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ولما کان سؤال اللہ الھدایۃ إلی الصراط المستقیم أجل المطالب ونیلہ أشرف المواھب، علم اللہ عبادہ کیفیۃ سؤالہ وأمرھم أن یقدموا بین یدیہ حمدہ والثناء علیہ وتمجیدہ ثم ذکر عبودیتھم وتوحیدھم، فھاتان وسیلتان إلی مطلوبھم توسل إلیہ بأسمائہ وصفاتہ وتوسل إلیہ بعبودیتہ، وھاتان الوسیلتان لایکاد یرد معھما الدعاء. یعنی:جبکہ اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم کی ہدایت کا سوال سب سے بڑا مطلبِ شرعی ہے،اور صراطِ مستقیم کاحصول سب سے عمدہ اور اعلیٰ تحفہ ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو صراطِ مستقیم کے سوال کا طریقہ بتادیا،اور انہیں حکم دیا کہ اس سوال سے قبل،اللہ تعالیٰ کی حمد،ثناء اور بزرگی کا وسیلہ پیش کرو، پھر اپنی توحید اور اللہ تعالیٰ کیلئے عبودیت کا وسیلہ بھی پیش کرو،گویا اس عظیم مطلوب کے حصول کیلئے دووسیلے پیش کرو،ایک اس کے اسماء وصفات کا دوسرا اس کے سامنے اپنی عبودیت کے اظہارکا،اور یہ دووسیلے ایسے ہیں جنہیں پیش کرنے سے کوئی دعا ،ردنہیں کی جاتی۔ |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |