Maktaba Wahhabi

32 - 107
ا: تدلیس کی تعریف: ’’ سیاق الحدیث بسند یوہم أنہ أعلیٰ مما کان علیہ في الواقع۔‘‘ ’’ کسی حدیث کوکسی ایسی سند سے روایت کرنا جس سے اس کے اس کی اصل سند سے اعلی ہونے کا گمان ہو۔‘‘ ب: اس کی أقسام : تدلیس کی دو قسمیں ہیں : تدلیس الأسناد اور تدلیس ِ شیوخ ۔ تدلیس أسناد : کہ جس راوی سے ملاقات ہے ‘ اس سے ایسی روایت نقل کرے جو اس کے الفاظ سے سنی نہیں ، اور نہ ہی اس کے عمل سے دیکھی۔(اسے ) ایسے الفاظ سے روایت کرے جس سے یہ وہم ہو کہ اس نے ( یہ روایت ) سنی ہے یا دیکھا ہے۔ مثال کے طور پر (وہ یوں کہے ) : ’’قال‘‘ یا پھر کہے: ’’فعل‘‘ یا ’’عن فلانٍ أن فلاناً قال ‘‘یا ’’فعل‘‘ اور اس طرح کے الفاظ۔ تدلیس ِ شیوخ :یہ کہ راوی اپنے شیخ کا وہ نام لے ‘ یا اس کی وہ صفت بیان کرے ‘ جو اس کی شہرت کے عکس ہو‘ اس سے وہم ہوکہ یہ شیخ کوئی اور ہے (ایسا وہ) یا تو اس کی کم سنی کی وجہ سے کرتا ہے، تووہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کی روایت اس طرح ظاہر ہو کہ وہ اپنے سے کم سن سے روایت کررہا ہے۔ یا پھر اس لیے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ اس کے شیوخ بہت زیادہ ہیں ‘ یا ان کے علاوہ کوئی اور مقاصد ہوں ۔ مدلس بہت زیادہ ہیں ‘ ان میں ضعفاء بھی ہیں اور ثقات بھی ، جیسے حسن بصری‘ اور حمید الطویل ‘ اور سلیمان بن مہران الأعمش‘ اورمحمد بن اسحاق ‘ اور ولید بن مسلم ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کو پانچ مراتب میں تقسیم کیا ہے : پہلا مرتبہ : جو کبھی کبھار ہی تدلیس کرتے ہیں ‘ جیساکہ یحییٰ بن سعید ۔ دوسرا مرتبہ : وہ جن کی تدلیس کو آئمہ نے قبول کیا ہو‘ اور ان کی امامت اور ثقاہت اور قلت تدلیس کی وجہ سے ان کی روایات کو اپنی صحیح میں نقل کیا ہو، جیساکہ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ۔ یا وہ جو صرف ثقہ ہی سے تدلیس کرتا ہوجیسا کہ سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ ۔
Flag Counter