Maktaba Wahhabi

145 - 393
لَا نِکَاحَ اِلاَّ بِوَلِيٍّ، وَالسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لاَّ وَلِیَّ لَہٗ۔[1] ’’ ولی کے بغیر نکاح نہیں اور بادشاہ اس کا ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہ ہو۔ ‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ جس عورت کا ولی نہ ہو اگر وہ بستی یا محلہ میں ہو تو نائب حاکم، دیہاتیوں کا امیر اور بستی کا سربراہ اس کا نکاح کرادے گا اور اگر ان میں کوئی ایسا امام ہو، جس کی اطاعت کی جاتی ہو تو وہ اس کی اجازت سے اس کا نکاح کرادے گا۔ ‘‘ [2] ۲۰۔ سفر کی وجہ سے ولی کے غائب ہونے کی صورت میں حکم: اگر ولی سفر کی وجہ سے غائب ہو تو فقہاء نے اس صورت کے حکم کو بھی بیان کیا ہے۔ ابوالقاسم عمر بن حسین خرقی کہتے ہیں کہ ’’ اگر عورت کا ولی کسی ایسی جگہ غائب ہو جہاں خط نہ پہنچ سکتا ہو یا پہنچ تو سکتا ہو مگر وہ جواب نہ دیتا ہو تو اس کی شادی اس کے عصبہ میں سے وہ شخص کرادے گا، جو اس غائب کی نسبت دور کا رشتہ رکھتا ہو اور اگر کوئی ایسا رشتہ دار بھی نہ ہو تو پھر بادشاہ اس کی شادی کرادے گا۔ ‘‘ [3] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک سوال کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ ’’ اگر ولی کسی دور دراز کے مقام پر غائب ہو تو ولایت کسی دور کے رشتہ دار یا حکم کی طرف منتقل ہوجائے گی۔ ‘‘[4] فقہاء کا اس مسئلہ میں دو اعتبار سے اختلاف ہے: (۱) اقرب ولی کے غائب ہونے کی صورت میں اس کی شادی کے لیے ولی کون ہوگا؟
Flag Counter