Maktaba Wahhabi

35 - 608
کے نام خصوصیت کے ساتھ مشہور ہیں۔ دور اسلام میں فن خطابت اپنے اوج کمال تک پہنچ گیا جیسا کہ تاریخ الادب اللغۃ العربیۃ کے مصنف نے لکھا ہے :’’زادت الخطابۃ بعد الإسلام قوۃ ووقعا فی النفوس‘‘ کیونکہ خطابت کی مثال اس دھات کی سی ہے کہ جس میں کثرت استعمال سے نکھار اور ابھار آتا ہے اور اس کی بریق ولمعان اور خوشنمائی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔جیسا کہ بعض ادباء کا قول ہے : ’’رأس الخطابۃ الطبع و عمودہا الدربۃ ‘‘[1] چونکہ خطابت وسائل دعوت میں سے انتہائی اہم ،وسیع المجال،زود اثر،سریع النفوذ اور بالغ التاثیر ذریعہ ہے۔ اس لیے اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت اور تبلیغ کے لیے اس فن پر خصوصی توجہ دی گئی ہے بلکہ اسلام میں اسے بعض عبادات کا حصہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ خطبہ جمعہ،عیدین کا خطبہ، نماز استسقاء اور سورج وچاند گرہن کی نماز کے وقت خطبہ اور خطبۂ حج وغیرہ۔ اس فن کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کواس دور کے طاغوت اکبر فرعون کو دعوت الی اللہ دینے کا حکم دیا تو اس فریضہ کی کما حقہ ادائیگی اور فرمان الٰہی کی علی وجہ الکمال تعمیل وبجا آوری کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جس چیز کی اشد ضرورت محسوس کی وہ ملکۂ خطابت ہی تو تھا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ { وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّن لِّسَانِیْ ، یَفْقَہُوا قَوْلِیْ}[2] کہ مجھے فصیح اللسان بنا دے تا کہ وہ میرے بیان کو سمجھ سکیں۔اور ساتھ ہی یہ استدعا بھی کی کہ میری تائید وحمایت کیلئے میرے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی میرے ہمراہ کر دیجیے کیونکہ{ ہُوَ أَفْصَحُ مِنِّی لِسَانًا}[3] کہ وہ مجھ سے بڑھ کر فصیح اللسان ہے۔ اسی طرح جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ھ؁ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کر کے مسلمانوں کو فریضۂ حج کی ادائیگی کا حکم ارشاد فرمایا اور بعد میں جب سورۂ برأت(توبہ)نازل ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ یہ سورہ لے کر جائیں اور موسم حج میں لوگوں کو سنائیں تو انہوں نے فوری طور پر جس امر کی ضرورت محسوس کی وہ بھی اس فن کی اہمیت وضرورت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔انہوں نے عرض کیا تھا: ’’یَا نَبِیَّ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم إِنِّیْ لَسْتُ بِاللَّسِنِ وَلاَ بِالْخَطِبِ ‘‘کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !میں فصیح اللسان اور خطیب نہیں ہوں۔تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( اللہ کا یہ پیغام)پہنچانا تو لازمی ہے۔آپ جائیں یا میں خود پہنچاؤں؟تو حضرت علی رضی اللہ عنہ عرض پرداز ہوئے کہ اگر لازمی ہے تو پھر میں ہر صورت تعمیل ارشاد کے لیے حاضر
Flag Counter