Maktaba Wahhabi

223 - 413
نہیں۔اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جو روایت مسند امام احمد، بیہقی اور بزار سے نقل کی وہ بھی صحیح نہیں اس کی تصحیح بھی محض تکلف ہے اور علامہ العلقمی کی تصحیح میں بھی کوئی وزن نہیں۔ رہی الاقعاء اور التورک سے متعلقہ مسئلہ پر بحث تو یہ یہاں ہمارا موضوع نہیں۔ ہمیں تو حضرت عثمانی کے اصول اور ان اصولوں کے تناظر میں بعض روایات پر بحث مطلوب ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ اب اس کے برعکس دیکھئے کہ مولانا عثمانی نے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب القراء ۃ کے حوالے سے حضرت عبادۃ بن الصامت کی ایک حدیث ذکر کی جس کے الفاظ ہیں: ’لاصلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب خلف الإمام‘ اور یہ بھی نقل کیا کہ ’ھذا إسناد صحیح‘ اس کی سند صحیح ہے۔مگر مولانا صاحب نے’’خلف الامام‘‘ کے الفاظ کو مدرج اور شاذ کہہ کر مردود قرار دیا ہے۔ [1] لیکن حضرت کو یہ یاد نہیں رہا کہ علامہ علی المتقی نے بھی کنز العمال[2] میں یہ روایت ذکر کی اور اس کی تصحیح سند بھی نقل کی ہے۔ ان سے قبل علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے جمع الجوامع [3] میں بھی اسی طرح ’ھذا إسناد صحیح‘ کہا اور کوئی اختلاف نہیں کیا۔تعجب ہے کہ مقدمہ کنزالعمال[4] کی بنیاد پر علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ،امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ سے روایت نقل کریں اور کوئی کلام نہ کریں تو وہ روایت صحیح قرار پائے۔ مگر امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ سے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ علی متقی رحمۃ اللہ علیہ ’إسنادہ صحیح‘ نقل کریں اور کوئی کلام بھی نہ کریں تو پھر بھی وہ روایت شاذ اور مدرج قرار پائے۔ اصول کہاں گیا؟ اسی طرح حضرت مولانا عثمانی نے کنز العمال کے حوالے سے ایک حدیث حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے جس کے الفاظ ہیں: ((من صلی مکتوبۃ اوسبحۃ
Flag Counter