Maktaba Wahhabi

409 - 413
یہ بات سما جائے کہ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حکم’’ابوحنیفہ عن نافع عن ابن عمر‘‘ کی بنا پر لگایا ہے، مگر ہمارے نزدیک یہ عذر گناہ بدتراز گناہ کا مصداق ہے۔ اگر ایسا ہی تھا تو سند کے دوسرے راویوں پر بحث چہ معنی دارد؟ بلکہ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے خود نواقض الوضوء میں جامع المسانید[1] ہی سے ایک روایت ذکر کر کے فرمایا ہے: ((رجالہ ثقات إلا أن سندہ إلی أبی حنیفۃ فیہ کلام)) [2] ’’اس کے راوی ثقہ ہیں،مگر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تک کی سند میں کلام ہے۔‘‘ جس سے واضح ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے اوپر کی سند ہی نہیں ان سے پہلے کی سند کا صحیح ہونا بھی ضروری ہے۔ ذکرِ سند میں حکمت عملی یہاں یہ بات بجائے خود غور طلب ہے کہ جامع المسانید[3] میں علامہ الخوارزمی نے یہ روایت پہلے ابو محمد الحارثی کی مسند امام ابو حنیفہ سے باسند نقل کی، پھر اسے قاضی عمربن الحسن الاشنانی کی مسند امام ابو حنیفہ سے نقل کیا ہے اس کے بعد اسے ابن خسرو رحمۃ اللہ علیہ کی مسند الامام سے بواسطہ قاضی عمر بن الحسن رحمۃ اللہ علیہ ذکر کیا ہے اور مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں سے قاضی عمر الاشنانی کی سند پر اعتماد کیا ۔ابو محمد عبد اللہ الحارثی کی سند پر نہیں۔ ہم یہاں اہلِ علم کی دلچسپی کے لیے پہلے جامع المسانید سے پھر اصل مراجع سے اس کی اسانید ذکر کیے دیتے ہیں۔ ((أخرجہ أبومحمد البخاری عن قبیصۃ الطبری عن زکریا بن یحیی النیسابوری عن عبد اللّٰه بن أحمد بن خالد الرازی عن أبی
Flag Counter