Maktaba Wahhabi

407 - 413
غور فرمایا آپ نے کہ عبد الحمید کی روایت مذہب کے مخالف ہے اور وہ ربماوہم کا شکار ہے اس لیے اس کا تفرد حجت نہیں۔ یادش بخیر قبیصۃ بن عقبہ کے بارے میں بھی کہا گیا ’صدوق ربما خالف‘ اس کی روایت بھی مذہب کے خلاف، لہٰذا اس کا تفرد بھی قابلِ اعتمادنہیں۔[1] مگر محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی کی روایت مذہب کے موافق ہے اس لیے ’ربما یھم‘ استدلال میں مخل نہیں۔ سبحان اللہ عبد الحمید بن جعفر رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق یا اس کی روایت کے حوالے سے مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے پیش روحضرات کی بے اصولیوں اور بے اعتدالیوں کو بے نقاب کرنا ہمارا موضوع نہیں، ہمارا یہاں مقصد عبد الحمید رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں مولاناعثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی تضاد فکری اور نقل جرح میں ان کی بے اصولی کوبیان کرنا تھا۔ قارئین کرام فیصلہ کر سکتے ہیں کہ عبد الحمید رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بھی دیگر بہت سے راویوں کی طرح کس طرح بے انصافی اور عصبیت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر ’’اسناد صحیح‘‘ کی حقیقت مولانا عثمانی نے ’باب طریق السجود‘ میں جامع المسانید[2] سے ایک روایت بیان کی ہے اور فرمایا: ’إسناد صحیح ‘ ’’سند صحیح ہے ‘‘ پھر اس کے ایک ایک راوی کی توثیق بیان کی ہے،مگر ایک راوی ’زربن نجیح‘ کے بارے میں فرمایا ہے: ((وزربن نجیح لم أجد ترجمتہ)) [3] ’’کہ میں نے زربن نجیح کا ترجمہ کہیں نہیں پایا۔‘‘ اب اس کا فیصلہ تو اہلِ علم ہی کریں گے کہ جس سند کے راوی کا ترجمہ ہی نہ ملے اس کی سند کو صحیح کہا جا سکتا ہے؟ مگر وہ غالبا اس لیے صحیح ہے کہ ان کے مذہب کے موافق ہے۔ سبحان اللہ
Flag Counter