Maktaba Wahhabi

29 - 108
بات بالکل نمایاں ہوجاتی ہے کہ آپ کے ذہن میں کچھ تحفظات تھے بھی تو آپ ان سے دست بردار ہوگئے تھے،بلکہ یزید کی حکومت تک کو تسلیم کرلینے پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔ ایک یہ بات اس سے واضح ہوئی کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ،امیر یزیدکو فاسق و فاجر یا حکومت کا نااہل نہیں سمجھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو وہ کسی حالت میں بھی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے کے لیے تیار نہ ہوتے جیسا کہ وہ تیار ہوگئے تھے، بلکہ یزید کے پاس جانے کے مطالبے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ان سے حسن سلوک ہی کی توقع تھی۔ظالم وسفاک بادشاہ کے جانے کی آرزو(آخری چارہ ٔ کارکے طور پر بھی)کوئی نہیں کرتا۔ اس تفصیل سے اس حادثے کے ذمہ دار بھی عریاں ہوجاتے ہیں اور وہ ہے ابن زیاد کی فوج، جس میں سب وہی کوفی تھے جنہوں نے آپ کو خط لکھ کر بلایا تھا، انہی کوفیوں نے عمر بن سعد کی سعیٔ مصالحت کو بھی ناکام بنادیا جس سے کربلا کا یہ المناک سانحۂ شہادت پیش آیا۔وَكَانَ أَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا(اس کی مزید تفصیل کتاب کے آخر میں……سانحۂ کربلا، پس منظر اور اسباب……میں ملاحظہ فرمائیں۔) حضرت عثمان اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت: جب واقعہ یہ ہے کہ یہ معرکہ سیاسی نوعیت کا حامل ہے، حق وباطل کا معرکہ نہیں ہے،تو بہتر ہے کہ ایام محرم میں اس موضوع ہی سےاحتراز کیا جائے کہ ان دنوں میں اس سانحے کو اپنے بیان و خطابت کا موضوع بنانا بھی شیعیت کو فروغ دینا ہےکیونکہ تاریخ اسلام میں اس سے بھی زیادہ اہم شہادتوں کو نظر انداز کرکے سانحۂ کربلا کو اجاگر کرنا یہ بھی رفض و تشیع ہی کا انداز ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کچھ کم جگر سوز اور دل دوز ہے جو ۱۸ ذو الحجہ کو ہوئی؟ حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت ِ عظمیٰ کیا معمولی سانحہ ہے جو یکم محرم کو پیش آیا؟ اسی طرح اور بڑی بڑی شہادتیں ہیں لیکن ان سب کو نظر انداز کرکے صرف شہادت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی زبان و قلم کا موضوع بنانا کسی طرح صحیح نہیں، اور جو شخص ایساکرتا ہے وہ بالواسطہ اور شعوری یا غیر شعوری طور پر شیعی انداز فکر کو فروغ دینے کا باعث بنتا ہے۔
Flag Counter