Maktaba Wahhabi

28 - 108
واپس مدینہ منورہ لوٹ جاتا ہوں یا پھر میں(براہ راست جاکر)یزید بن معاویہ کی ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیتا ہوں(یعنی ان سے بیعت کرلیتا ہوں)عمر بن سعد نے ان کی یہ تجویز قبول کرلی۔‘‘ ابن سعد نے خود منظور کر لینے کے بعد یہ تجویز ابن زیاد(گورنر کوفہ)کو لکھ کر بھیجی مگر اس نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ پہلے وہ(یزید کے لیے)میرے ہاتھ پر بیعت کریں۔ ((فکتب الیہ عبید اللّٰه(ابن زیاد)لا اقبل منہ حتی یضع یدہ فی یدی))(الاصابۃ: ۷۱/۲، الطبری: ۲۹۳/۴) حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور ان کی طبع خوددار نے یہ گوارا نہیں،چنانچہ اس شرط کو مسترد کردیا جس پر لڑائی چھڑ گئی اور آپ کی مظلومانہ شہادت کا یہ حادثہ ٔ فاجعہ پیش آگیا۔ ((فانا للّٰه وانا الیہ راجعون۔فامتنع الحسین فقاتلوہ۔۔۔ثم کان آخر ذلک ان قتل رضی اللّٰه عنہ وارضاہ)) اس روایت کے مذکورہ الفاظ جس میں حضرت حسین نے بیعت یزید پر رضا مندی کا اظہار فرمایا" الاصابہ" کے علاوہ *تہذیب التہذیب، ۳۲۸/۲، ۳۵۳ *تاریخ طبری، ۲۹۳/۴ *تہذیب تاریخ ابن عساکر، ۳۲۵/۴، ۳۳۷ *البدایۃ والنہایۃ، ۱۷۰/۸۔۱۷۵ *کامل ابن اثیر،۲۸۳/۳ اور دیگر کئی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔حتی کہ شیعی کتابوں میں بھی ہیں۔ان کے دوسرے الفاظ بھی ہیں تاہم نیتجے میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ ان تاریخی شواہد سے معلوم ہوا کہ اگر یہ حق و باطل کا معرکہ ہوتا توکوفے کے قریب پہنچ کر جب آپ کو مسلم بن عقیل کی مظلومانہ شہادت کی خبر ملی تھی۔آپ واپسی کا عزم ظاہر نہ فرماتے۔ظاہر بات ہے کہ راہ حق میں کسی کی شہادت سے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ ساقط نہیں ہوجاتا۔ پھر ا ن شرائط مصالحت سے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے رکھیں، یہ
Flag Counter