Maktaba Wahhabi

19 - 108
((لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ))(صحیح البخاری، الجنائز، باب لیس منا من ضرب الخدود، ح:۱۲۹۷) ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخسار پیٹے، گریبان چاک کیے اور زمانۂ جاہلیت کے سے بین کیے۔‘‘ یہ صورتیں جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہیں،نوحہ و ماتم کے ضمن میں آتی ہیں، جو ناجائز ہیں۔اس لیے فطری اظہار غم کی جو بھی مصنوعی اور غیر فطری صورتیں ہوں گی،وہ سب ناجائز نوحے میں شامل ہوں گی۔پھر ان نوحوں میں مبالغہ کرنا اور زمین و آسمان کے قلابے ملانا اور عبدومعبود کے درمیان فرق کو مٹادینا تو وہی جاہلانہ شرک ہے جس کے مٹانے کے لیے ہی تو اسلام آیا تھا۔ رابعاً:تعزیہ پرست تعزیوں سے اپنی مرادیں اور حاجات طلب کرتے ہیں جو صریحاً شرک ہے۔جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں مظلومانہ شہید ہوگئے اور اپنے اہل و عیال کو ظالموں کے پنجے سے نہ بچا سکے تو اب بعد از وفات وہ کسی کے کیا کام آسکتے ہیں؟ خامساً:تعزیہ پرست حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مصنوعی قبر بناتے ہیں اور اس کی زیارت کو ثواب سمجھتے ہیں حالانکہ حدیث میں آتا ہے: ((من زار قبرا بلا مقبور کانما عبدالصنم))(رسالہ تنبیہ الضالین، از مولانا اولاد حسن، والد نواب صدیق حسن خان رحمہ اللّٰه تعالیٰ) یعنی’’جس نے ایسی خالی قبر کی زیارت کی جس میں کوئی میت نہیں تو گویا اس نے بت کی پوجا کی۔‘‘ مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی صراحت: علاوہ ازیں اہل سنت عوام کی اکثریت مولانا احمد رضاخاں بریلوی کی عقیدت کیش ہے، لیکن تعجب ہے کہ اس کے باوجود وہ محرم کی ان خودساختہ رسومات میں خوب ذوق وشوق سے حصہ لیتے ہیں۔حالانکہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے بھی ان رسومات سے منع کیا ہے اور انہیں بدعت،ناجائز اور حرام لکھا ہے اور ان کو دیکھنے سے بھی روکا ہے۔چنانچہ ان
Flag Counter