Maktaba Wahhabi

36 - 108
جواب دیا: ((خلافتہ صحیحۃ قال بعض العلمآء بایعہ ستون من اصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم منھم ابن عمر وأما محبتہ فمن أحبہ فلا ینکر علیہ ومن لم یحبہ فلا یلزمہ ذٰلک لأنہ لیس من الصحابۃ الذین صحبوا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فیلتزم محبھم إکراما لصحبتھم))(ذیل طبقات الحنابلۃ لابن رجب رحمۃ اللّٰه علیہ: ۳۴/۲) یعنی’’یزید کی خلافت صحیح تھی چنانچہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ ساٹھ صحابہ نے بشمول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کی بیعت کر لی تھی۔رہی اس سے محبت رکھنے کی بات تو اگر اس سے کوئی محبت رکھتا ہے تو اس پر نکیر نہیں کرنی چاہیے تاہم کوئی اس سے محبت نہ رکھے جب بھی کوئی ایسی بات نہیں، وہ صحابی تو نہیں جس سے محبت رکھنا شرعاً ضروری ہو۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جب صحابۂ کرام تک نے یزید کی بیعت کر لی تھی تو ظاہر ہے یزیدکا موقف یہی ہوسکتا تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوکر اس کی حکومت کو صحیح جانیں تاکہ انتشار کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ رہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا موقف؟ تو حقیقت یہ ہے کہ بعد کی حاشیہ آرائیوں اور فلسفہ طرازیوں سے صرف نظر کرکے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت حسین نے واضح الفاظ میں اپنے موقف کی کبھی وضاحت ہی نہیں فرمائی کہ وہ کیا چاہتے تھے؟ اور ان کے ذہن میں کیا تجویز تھی؟ یزید کے خلیفہ بن جانے کے بعد جب گورنر مدینہ ولید بن عتبہ نے انہیں یزید کی بیعت کی دعوت دی تو انہوں نے فرمایا کہ میں خفیہ بیعت نہیں کرسکتا، اجتماع عام میں بیعت کروں گا۔ ((أما ما سألتنی من البیعۃ فإن مثلی لا یعطی بیعتہ سراً ولا أراک تجتزی ء بھا منی سراً دون أن نظھرھا علی رؤوس الناس علانیۃ))(الطبری: ۲۵۱/۴، مطبوعہ دارالاستقامۃ)
Flag Counter