Maktaba Wahhabi

35 - 108
دراصل موصوف یہ سوال کرکے کہ صحیح موقف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا تھا یا یزید کا؟ ایک عام جذباتی فضا سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔کیونکہ عام ذہن یہ بنا دیا گیا ہے کہ یزید بہت برا شخص تھا،خانوادۂ رسول کا دشمن تھا اور دنیا جہان کی خرابیاں اس میں جمع تھیں۔اس فضا میں کون شخص حقیقت سے پردہ اُٹھانے کی ہمت کرسکتا ہے؟ اور اگر کوئی شخص یہ جرأت کرلے تو ایسے شخص کے متعلق فوراً یہ کہہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ تو "اہل بیت" کا دشمن ہے۔دیکھو تو کتنی جرأت سے حادثہ ٔ کربلا کی تحقیق کے درپے ہے۔ تاہم چندباتیں اہل علم و فکر کے غور کے لیے پیش خدمت ہیں۔ یزید کے موقف کی وضاحت تاریخ میں موجود ہے اور وہ یہ کہ حضرت معاویہ کی وفات کے بعد اس وقت کی ساری قلمرو میں وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے صحیح جانشین قرار دیے گئے، صرف مدینہ منورہ میں چار صحابیوں سے بیعت لینی باقی تھی۔ ۱۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ۲۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ۳۔عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ۴۔اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اول الذکر دونوں بزرگوں نے یزید کی حکومت باقاعدہ طور پر منظور کرلی جیساکہ تاریخ طبری وغیرہ، سب تاریخ کی کتابوں میں موجود ہےجب کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے پہلو تہی کی جس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے کہا: ((اتقیا اللّٰه ولا تفرقا بین جماعۃ المسلمین))(البدایۃ النہایۃ: ۱۵۰/۸، الطبری: ۲۵۴/۴) یعنی’’اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘ اور واقعہ یہ ہے کہ جن محققین علمائے امت نے حقائق کی روشنی میں جذبات سے الگ ہوکر اس پر غور کیا ہے وہ یزید کی حکومت کو اسی طرح تسلیم کرتے رہے جس طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر سارے شہروں کے سب صحابہ و تابعین نے، صرف مذکور الصدر دو صحابیوں کے سوا، یزید کو وقت کا امیر المومنین تسلیم کرلیا تھا۔چنانچہ ۶۰۰ھ میں وفات پانے والے ایک بڑے عابد و زاہد اور اونچے پائے کے محدث و فقیہ حافظ عبدالغنی بن عبدالواحد مقدسی رحمہ اللہ سے جب یزید کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے
Flag Counter