Maktaba Wahhabi

157 - 621
جیساکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دینار و درہم اور نہ ہی اونٹ اور بکری چھوڑے، اور(اسی لیے) آپ نے وصیت بھی نہیں۔ ‘‘[1] امام بخاری اور مسلم نے اسود بن یزید سے روایت کیا ہے؛ وہ فرماتے ہیں کہ:’’ سیّدہعائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق وصیت کا ذکر کیا گیا؛ تو آپ نے فرمایا: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کب انہیں وصی بنایا؟ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے سے لگائے ہوئے بیٹھی تھی؛ (یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں تھے) اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طشت منگایا؛ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں گر پڑے اور مجھے خبر نہ ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کو کب وصی بنایا ؟‘‘[2] سیّدہعائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ صراحت اوروضاحت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد علی رضی اللہ عنہ کے لیے وصیت نہیں کی ؛ یہ اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی وصی نہیں ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی گود میں ہوا، اگر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی وصیت کی ہوتی تو آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اس کو جاننے والی ہوتیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ خود جناب ِ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لوگوں سے علیحدہ کسی چیز میں خاص نہیں کیا۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو طفیل کی سند سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے ؛ آپ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو چھوڑ کر ہمیں کسی چیز میں خاص نہیں کیا ؛ سوائے اس کے جو میری تلوار
Flag Counter