Maktaba Wahhabi

184 - 621
ایک بھی حضرتِ حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے نہیں تھا؛ جن کی امامت کا دعویٰ رافضی کرتے ہیں۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اس حدیث میں بارہ عادل خلفاء کے وجود پر دلالت ہے۔ یہ شیعہ اثنا عشریہ کے امام نہیں ہیں، اس لیے کہ ان کے ائمہ میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے لیے امارت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ جب کہ یہ(خلفاء) لوگ قریش میں سے تھے ؛ جو ایک دوسرے کے بعد پے در پے حاکم بنے، اور لوگوں میں عدل کے ساتھ فیصلے کرتے رہے۔ ان کی بشارت سابقہ کتابوں میں بھی وارد ہوئی ہے۔ پھر ان کے لیے یہ بھی شرط نہیں ہے کہ یہ لوگ پے درپے آئیں، بلکہ ان کا وجود یکبارگی (یعنی پے درپے ) بھی ہوسکتا ہے، اور آگے پیچھے بھی۔ ان میں سے چار عہد ِ ولایت سے آئے، یعنی ابو بکر و عمر وعثمان اور علی ( رضی اللہ عنہم ) پھر وقفہ ہوا، پھر اللہ جس کو چاہے گا، لے آئے گا۔ اور اس وقت میں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ انہی میں سے ایک امام مہدی ہوں گے جن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے موافق ہوگا، اور کنیت کنیت، کے موافق۔‘‘[1] دوسری وجہ :… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے۔ [یہ نہیں فرمایا کہ اولادِ حسین میں سے ہی ہوں گے] حسین کی اولاد تو قریش کا ایک جزء ہیں، تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امامت ان میں ہی محدود نہیں ہے۔ واقع حال[زمینی حقائق] بھی یہود کے دعویٰ ’’باشادہی صرف آلِ داؤد میں ہی ہوسکتی ہے‘‘ کے باطل ہونے کی دلیل ہیں۔ اوراس میں رافضی دعویٰ پر بھی رد اور اس کے باطل ہونے کی دلیل ہے جو امامت کو صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد تک ہی محدود کرتے ہیں۔ داؤد علیہ السلام کی حکومت ایک بڑا لمبا زمانہ ہوا ختم ہوچکی۔ یہ اس وقت ہوا جب ان کی مملکت کا سقوط بخت نصر بابلی بادشاہ کے ہاتھوں ہوا۔جب وہ ان کے ملک کے دار الحکومت یروشلم پر غالب آگیا۔اس نے شہر کے دیواریں گرادیں، ہیکل کو جلا دیا ؛ اور وہاں کے باشندوں کا قتل عام کیا۔ اور جو بچ گئے ان کو قیدی بناکر بابل لے گیا۔ یہودی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔ بخت نصر کے ہاتھوں ان کے ملک کے سقوط کا یہ قصہ سفر ارمیاء کے اصحاح (۳۹)انتالیس میں یوں آیا ہے : ’’نویں سال جب یروشلم کا اقتدار مملکت یہوذا کے بادشاہ صدقیا[2]نے سنبھالا؛ تو دسویں مہینہ میں بابل کا
Flag Counter