Maktaba Wahhabi

39 - 621
سکیں۔ ان کو یہ وصیت تھی کہ اپنے کلام میں کوئی توڑ (یاکمزوری ) نہ آنے دیں اور اگروہ لوگ اس بات کو نہ مانیں تو انہیں کوئی تکلیف نہ دی جائے۔ جب سیّدناابو بکر رضی اللہ عنہ ’’بیت المدارس ‘‘(یہودیوں کے عبادت خانے )میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ یہودایک آدمی کے پاس جمع تھے‘ جس کا نام ’’فنحاص ‘‘ تھا، اوروہ بنی قینقاع کا سردار تھا۔یہ ان کے علماء اور درویشوں میں سے تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور درویش تھا جس کا نام ’’اشیع ‘‘ تھا۔جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے آنے کا مقصد پیش کیا، اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پیش کیا۔ جب اس نے خط ختم کیا تو کہنے لگا:’’ تمہارا رب اس بات کا محتاج ہوگیا ہے کہ ہم اس کی مدد کریں۔‘‘[1] اور یہ بھی کہا جاتاہے کہ اس نے کہا: جب اس نے اس وحی کے نازل ہونے کے بارے میں سنا: ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ط وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ ص وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ (البقرہ: ۲۴۵) ’’کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے کہ وہ اس کے بدلے اُس کو کئی گنا زیادہ دے گا اور اللہ ہی (روزی کو )تنگ اور کشادہ کرتا ہے اور تم اُسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔ ‘‘ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! کیا آپ کا رب فقیر ہوگیا ہے کہ بندوں سے قرض مانگتا ہے؟[2] اس پر یہ آیات نازل ہوئیں : ﴿ لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَآئُ م سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا وَقَتْلَھُمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ﴾ (آل عمران: ۱۸۱) ’’اللہ نے ان لوگوں کا قول سن لیا ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ فقیر ہے اور ہم امیر ہیں، یہ جو کہتے ہیں ہم اُس کو لکھ لیں گے اور پیغمبروں کو جو یہ ناحق قتل کرتے رہے ہیں اُس کو بھی (قلم بند کر رکھیں گے) اور (قیامت کے روز) کہیں گے کہ عذاب (آتش) سوزاں کے مزے چکھتے رہو۔ ‘‘ یہی نہیں بلکہ یہود نے وہ قرض، امانتیں اور سازوسامان جن کا ادا کرنا ان پر واجب تھا ؛ اسلام قبول کرنے والوں سے روک لیا۔ اس دعویٰ کے ساتھ کہ لوگوں کا یہ حق اسلام قبول کرنے سے پہلے تھا، اب کوئی حق نہیں ہے۔ اور اس نئے دین میں داخل ہونے سے ان کا حق ختم ہوگیا ہے۔[3] قرآن نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے، فرمایا:
Flag Counter