Maktaba Wahhabi

404 - 621
ان کی حدیث کی کتابوں میں ایسی روایات آئی ہیں جو اس معنی کی تائید کرتی ہیں کہ جناب حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ ہی دنیا اور آخرت میں مخلوق پر حاکم ہوں گے۔ سلیم بن قیس کا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: ’’اے علی ! تم میرے بعد اس زمین میں اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانی ہو اور قیامت میں ایک بڑے رکن ہو،جس نے تیرے سائے میں پناہ لی وہ کامیاب ہوگیا۔ اس لیے کہ مخلوق کا حساب تیرے پاس ہوگا ؛ اورتیری طرف ان کا لوٹ کر آناہے۔ اور میزان تیرا میزان ہے، اور پل صراط تیرا پل صرا ط ہے۔ اور موقف (میدان حشر ) تیرا موقف ہے۔ اور حساب تیرا حساب ہے۔ سو جو کوئی تیری طرف مائل ہوا، وہ نجات پا گیا۔ اور جس نے تیری مخالفت کی، اور خواہشات کے پیچھے چل پڑا، وہ ہلاک ہوگیا۔ اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا۔‘‘[1] اور کتاب ِ سلیم بن قیس میں ہی ہے : ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ علی اس امت کو بدلہ دینے والے ہیں۔ اور اس امت پر گواہ ہیں، اور اس کے حساب وکتاب پر متولی (نگران) ہیں۔‘‘[2] حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ حاکمیت صرف بنی آدم کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ان کے گمان کے مطابق فرشتوں تک ان کے پاس اپنے فیصلے کروائیں گے۔ [اس سلسلہ میں ] ان کے شیخ مفید نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر ایک جھوٹا بہتان گھڑا ہے ؛ کہ آپ فرماتے ہیں : ’’میں حضرتِ فاطمہ صلوات اللہ علیہا کے پاس آیا اور ان سے کہا: آپ کے شوہر کہاں ہیں ؟تو آپ فرمانے لگیں : ’’جبرئیل امین ان کو لے کر آسمان پر چڑھ گئے ہیں۔‘‘ میں نے کہا کس لیے؟تو فرمانے لگیں : ’’ ملائکہ میں سے کچھ لوگوں کا آپس میں کسی چیز کے بارے میں جھگڑا ہوگیاتھا۔ تو انہوں نے آدمیوں میں سے ایک فیصلہ کرنے والا طلب کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ کسی ایک آدمی کو چن لو۔‘‘ سو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چن لیا۔‘‘[3] ان میں سے بعض تو حضرت رضی اللہ عنہ کی شان میں بغیر کسی حیا اوراللہ تعالیٰ سے شرم محسوس کیے؛ سرکشی کرتے ہوئے یہ گمان(عقیدہ )رکھنے لگتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ جسے چاہے جنت میں داخل کردے،اور جسے چاہیے جہنم میں داخل کردے۔
Flag Counter