Maktaba Wahhabi

527 - 621
’’غویم نجس کیوں ہیں ؟اس لیے کہ وہ سینا کی پہاڑی پر موجود نہیں تھے ‘اور اس لیے کہ جب ناگ ’’حواء‘‘ میں داخل ہوا، تو اس میں نجاست انڈیل دی لیکن جب یہودی مسلسل اس پہاڑ پر کھڑے رہے تو اس نجاست سے پاک ہوگئے۔ جب کہ غویم اس وقت سیناء کی پہاڑی پر موجود نہیں تھے۔‘‘[1] اس نص کا مقتضی یہ ہے کہ تمام بنی آدم نجس ہیں ؛ اور ان کی ماں حضرت حواء علیہ السلام بھی ؛ اور ان میں شامل تمام انبیاء اور مرسلین بھی ؛ سوائے ان لوگوں کے جو یہودیوں کے ساتھ سیناء پہاڑی پر کھڑے ہوئے؛ اور اس کھڑے ہونے کے سبب وہ نجاست سے پاک ہوئے اللہ تعالیٰ ان کو اس جھوٹ پر بدلہ دے۔ یہودی (اپنے مخالفین کی نجاست سے متعلق) اس خیالی کہنے تک ہی نہیں رُکے، بے شک وہ (اپنی خباثتوں کے سبب) اس بات پر بھی مجبور ہوئے کہ اسے ایک مقدس روحانی دین بنادیں جس کا نافذ کرنا واجب ہو، اور اس کی تطبیق لازم ہو۔سو انہوں نے اپنی عبادات اور شعائر کو اسی اساس پر ترتیب دیا۔ سو انہوں نے اپنے آپ پر باقی مخلوق سے میل جول کو حرام قرار دیا۔ اور ان کے برتنوں کا استعمال بھی اپنے آپ پر حرام قرار دیا۔ یا ان کے کھانوں میں سے کھانا کھانا، یا ان کے ساتھ کسی بھی چیز میں معاملات کرنا [حرام قرارد یا ]۔ابہوداہ زارہ میں ہے : ’’یہ آنے والی چیزیں حرام ہیں، خصوصاً جو غویم سے متعلق ہوں، وہ دودھ جسے کوئی غوی یہودی کے غائبانہ گائے سے دھوئے ؛ اور ایسے ہی ان کی روٹیاں بھی حرام ہیں۔‘‘[2] تلمودہی کی ایک دوسری نص میں ہے : ’’ مشائخ نے آکوم[3] کی روٹی حرام قرار دی ہے ؛ اس خوف سے کہ ہم ان کے ساتھ (کھانا شروع کریں تو) کہیں ہم بھی انہی کی طرح نہ ہوجائیں۔‘‘[4] غیر یہودیوں کے برتن استعمال کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے، مگر دھو لینے کے بعد، اور دھونے میں خوب مبالغہ کیا جائے۔ اس کا ہدف اس گندگی کو ختم کرنا ہے جو اس غیریہودی کی وجہ سے برتن کو لگ گئی ہے۔ تلمود میں آیا ہے : جب یہودی آکوم سے کوئی برتن اپنے میز پر استعمال کرنے کے لیے خریدے، خواہ یہ برتن معدنیات سے بنا ہو، یا چونے یا شیشے کا، حتی کہ وہ نیا برتن ہی کیوں نہ ہو، تو یہودی پر واجب ہوتا ہے کہ اسے بڑے حوض یا تالاب سے دھولے ؛ اور چاہیے کہ اس کے دھونے میں نو سے دس گیلن پانی استعمال کرے۔‘‘[5]
Flag Counter