Maktaba Wahhabi

529 - 621
حیوان مسخر کردیے ہیں۔ ان کی تمام امتیں اور جنس ہمارے لیے مسخر کردہ ہیں۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے ہمیں دو قسم کے حیوانوں کی ضرورت پڑے گی : ایک قسم گونگے جانور، جیسے چوپائے، جانور اور پرندے۔ اور دوسرے بولنے والے جیسے عیسائی، مسلمان، بڈھسٹ اور مشرق و مغرب کی باقی ساری امتیں۔‘‘[1] یہودیوں کے درویشوں [احبار] کا یہ نظریہ ان کی مخالف باقی ساری امتوں کے متعلق ہے۔ وہ انہیں حیوانات کے علاوہ کچھ بھی نہیں سمجھتے جنہیں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی خدمت کے لیے مسخر کردیا ہے۔ اور ان کے عقیدہ کے مطابق غیر یہود کو انسانی صورت اس لیے عطا کی ہے تاکہ ان کے ساتھ برتاؤ کرنا یہودیوں کے لیے آسان ہوجائے۔ معاصر یہودی بھی اسی عقیدہ پر قائم ہیں۔ وہ بھی اپنے علاوہ باقی لوگوں کو اسی تلمودی نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ ریچرڈ یورتھن اپنی کتاب: ’’ الیہود النور والإسلام‘‘ جوکہ ۱۸۹۸ء میں شائع کی گئی؛ میں کہتا ہے: ’’بے شک جدید یہودی معتقدات میں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ اجانب (یعنی وہ لوگ جو یہودی دین کی طرف منسوب نہیں ہیں ) سوائے وحشی حیوانات کے کچھ بھی نہیں ہیں، اور ان کے حقوق کھیتوں میں چرنے والے جانوروں کے حقوق سے بڑھ کر نہیں ہیں۔‘‘ [2] یہودیوں نے اسی پر اکتفانہیں کیا؛ بلکہ جو بھی ان کی نسل سے نسبت نہیں رکھتا تھا، اس پر حقیر قسم کے حیوانات کے ناموں کا اطلاق کرنے لگے؛ جیسے : کتا،گدھا،اورخنزیر۔ تلمود میں آیا ہے : ’’ یہودیت سے خارج امتیں صرف کتے ہی نہیں، بلکہ وہ گدھے بھی ہیں۔‘‘[3] حاخام اریل (تلمود کا ایک کاتب) کہتا ہے : ’’یہودیوں کے دین سے خارج لوگ نجس اورخنزیر ہیں جو جنگلوں میں رہتے ہیں۔‘‘[4] اور تلمود میں ہی یہ بھی ہے کہ : ’’ یہودی دین سے خارج امتوں کے ساتھ کوئی قرابت نہیں ہوسکتی ہے، اس لیے کہ وہ گدھوں سے مشابہ ہیں،اور یہودی باقی امتوں کے گھروں کو حیوانات کے باڑے خیال کرتے ہیں۔‘‘[5] بس اتنا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ وہ غیر یہود پر حیوانات کو فضیلت دیتے ہیں۔ ان کے ایک حاخام سے روایت کیا گیا ہے، وہ کہتا ہے :
Flag Counter