Maktaba Wahhabi

77 - 621
علی بن حسین[1] کا حق ہے۔ پھر علی بن حسین کے بعد امام کے متعلق ان میں اختلاف ہے۔ شہرستانی کہتے ہیں : ’’امامیہ فرقہ کے لوگ حسن ؛ حسین، اورعلی بن الحسین کے بعد امام کے متعین ہونے کے بارے میں ایک رائے پر متفق نہیں ہیں۔ ‘‘[2] شہرستانی کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ رافضہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد ان تین کی امامت پر اجماع ہے۔ پھر ان کے بعد امام کے متعین ہونے میں ان کے مابین اختلاف واقع ہوا ہے اس کے لیے ایک اوربڑے رافضی عالم کی تحریر بھی گواہی دیتی ہے کہ رافضیوں کا اس مسئلہ پر اجماع ہے؛ وہ کہتا ہے : ’’امامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خاص کر بنی ہاشم میں ہوگی۔ پھر ان میں سے بھی علی، حسن، حسین میں اور ان کے بعدقیامت تک کے لیے ان کی آل میں ہوگی۔‘‘[3] جب کہ کیسانیہ فرقہ والے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد امامت ان کے بیٹے محمد بن (علی[4]) الحنفیہ کے لیے مانتے ہیں۔ میں نے کیسانیہ فرقہ کے اقوال کی اس کثرت کے باوجود جانچ پڑتال کی۔ میں نے یہی پایا کہ وہ امامت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے بیٹے محمد بن حنفیہ کے لیے مانتے ہیں۔ ان میں سے سوائے ایک فرقہ کے کوئی بھی حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی امامت کوتسلیم نہیں کرتا۔ یہ فرقہ بھی ان دونوں کے بعد امامت محمد بن الحنفیہ کا حق سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک امامت علی بن الحسین کے لیے نہیں ہے، خواہ جو بھی ہو۔ یہ لوگ اپنے اہم ترین اصولوں میں رافضی اجماع کے مخالف ہیں۔ ایسے ہی کیسانیہ اور رافضیہ کا بھی آپس میں بہت سے مسائل میں اختلاف ہے۔ ان میں سے کچھ کا ذکر شہرستانی نے کیاہے؛ وہ کہتے ہیں : ’’ان کا اس بات پر اجماع ہے کہ دین کسی آدمی کی اطاعت کا نام ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ وہ اپنے اس قول (عقیدہ ) کی وجہ سے ارکان ِ شریعت جیسے نماز؛روزہ ؛ زکواۃ؛ حج اور ان کے علاوہ باقی امور کو افراد پر تاویل کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں کا قیامت کے بارے میں عقیدہ بہت ہی کمزور
Flag Counter