Maktaba Wahhabi

34 - 82
الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ﴾ (البینۃ:۵) ’’انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اُسی کے لیے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر اور نماز کو قایم رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں۔ یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔ ‘‘ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئٍ مَانَوَی ۔))[1] ’’تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جو اُس نے نیت کی۔‘‘ خالق کائنات نے شریعت مطہرہ کے ذریعے اپنے بندوں کی آزمایش کی ہے، تاکہ وہ حسن عمل سے بہرہ مند ہوں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملک:۲) ’’جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے۔‘‘ قاضی فضیل بن عیاض رحمہ اللہ حسن عمل کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’أَخْلَصُہُ وَأَصْوَبُہُ‘ جو سب سے خالص او رسب سے درست اور ٹھیک ہو۔ یعنی اللہ کے ہاں وہی عمل مقبول ہے جو خالص اور صواب ہو۔ خالص کا مطلب ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو اور صواب کا مطلب ہے کہ وہ سنت نبوی کے مطابق ہو۔[2] یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین کے ہاں بدنیتی سے کیے گیے عمل کو زندہ لاش سے تعبیر کیا گیا ہے، جس میں روح نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر اپنی بندگی فرض کردی ہے۔ اس امر میں
Flag Counter