Maktaba Wahhabi

35 - 82
کوئی شک نہیں کہ تعلیم قرآن تقرب الٰہی کے حصول کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ حتیٰ کہ بعض سلف نے اس کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی افضل قرار دیا ہے۔ لہٰذا عبودیت و بندگی کا تقاضا ہے کہ اس عظیم اور جلیل القدر خدمت کو خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے انجام دیا جائے۔ اور اس کی ادائیگی میں مخلوق کے تاثرات و ملاحظات کا خیال نہ رکھا جائے۔ امام قشیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( اَلْاِخْلَاصُ تَصْفِیَۃُ الفِعْلِ عَنْ مُلَاحَظَۃِ الْمَخْلُوْقِیْنَ۔))[1] ’’اخلاص یہ ہے کہ اپنے عمل کو لوگوں کی نگاہوں سے بچاکر کرنا۔‘‘ بندہ جب اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہوجاتا ہے اور کسی غیر کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کے صدق و خلوص کے مطابق اسے کام کی توفیق اور استطاعت عطا فرما دیتے ہیں۔ امام ربانی محمد بن الواسع البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((اِذَا أَقْبَلَ الْعَبْدُ بِقَلْبِہِ عَلَی اللّٰہِ، أَقْبَلَ اللّٰہُ بِقُلُوْبِ الْعِبَادِ عَلَیْہِ۔))[2] ’’جب بندہ خلوصِ دل سے اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ تمام بندوں کے دلوں کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔‘‘ معلم قرآن کے لیے اخلاص نیت بڑی اہمیت کی حامل صفت ہے۔ جس سے ہر معلم کو مزین ہونا از حد ضروری ہے۔ تاکہ وہ لوگوں کو تمسک بالکتاب، محبت قرآن، حسن أدب اور جودت تلاوت کی تعلیم دے سکے۔ میں نے تعلیم قرآن کے بہترین نتایج کے حوالے سے اپنے بعض مشایخ کے صدق و اخلاص کا نظارہ کیا ہے ۔ جس کے سبب خالق کاینات نے ان کے اوقات و اعمال میں برکت پیدا فرمادی، لوگوں کے قلوب و اذہان کو ان کی طرف مایل کردیا اور ہرطرف سے ان پر
Flag Counter