Maktaba Wahhabi

36 - 82
تشنگانِ علم ٹوٹ پڑے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے رب کے ساتھ صدق و خلوص کا معاملہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے صدق و خلوص کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہترین انعامات سے نوازا اور انہیں امت کا بہترین فرد بنا دیا۔ جن بہترین لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محبوب کاینات نے فرمایا: ((خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ۔)) [1] ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن مجید سیکھتا اور سکھلاتا ہے۔‘‘ اخلاص نیت کی اس اہمیت وعظمت کے پیش نظر امام ابن أبی جمرۃ الاندلسی رحمہ اللہ (ت۶۹۵ھ) نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ: اہل علم میں سے بعض علما کو چاہیے کہ وہ لوگوں میں اخلاص نیت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے دیگر تمام مشغولیات ترک کردیں اور انہیں اخلاص کا درس دیں۔ فرماتے ہیں: ((وَدِدتُّ أَنَّہُ لَوْ کَانَ مِنَ الْفُقَھَائِ مَنْ لَیْسَ لَہُ شُغْلٌ اِلَّا اَن یُّعَلِّمَ النَّاسَ مَقَاصِدَھُمْ فِی أَعْمَالِھِمْ، وَیَقْعُدَ لِلتَّدْرِیْسِ فِی أَعْمَالِ النِیَّاتِ لَیْسَ إِلَّا، فَإِنَّہُ مَا أُتِیَ عَلَی کَثِیْرٍ مِنَ النَّاسِ اِلَّا مِنْ تَضْیِیعِ ذَلِکَ۔))[2] ’’میری خواہش ہے کہ بعض فقہاء کرام کے پاس اس کے علاوہ کوئی مشغولیت نہ ہو کہ وہ لوگوں کو ان کے اعمال میں اخلاص نیت کی تعلیم دیں۔ اور اعمال نیت کی تدریس کے لیے بیٹھ جائیں۔ کیونکہ اکثر لوگوں کے ہاں اس (نیت) کو ضایع کردیا گیا ہے۔‘‘ اخلاص نیت میں کمی وکمزوری وکوتاہی کے سبب بعض قراء کرام اور معلمین اپنے تلامذہ کو دیگر اساتذہ کرام سے فیض حاصل کرنے سے منع کرتے ہیں۔ حالانکہ ان دیگر اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنا تلامذہ کے لیے انتہائی مفید اور نفع بخش ہوتا ہے۔
Flag Counter