Maktaba Wahhabi

41 - 82
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِھَذَا الْقُرْآنِ مَنِ اتَّبَعَہُ، وَاِن لَّمْ یَقْرَأْ ہُ۔))[1] ’’قرآن کے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو اس کی اتباع کرتے ہیں، اگرچہ وہ اس کی مہارت سے قراء ت نہ بھی کرتے ہوں۔‘‘ معلم کو چاہیے کہ وہ خود کو اور اپنے تلامذہ کو قراء ت میں من گھڑت أسالیب سے دور رکھے، جو قرون مفضلہ(فضیلت والے ادوار) کے بعد گھڑ لیے گئے ہیں۔ جیسے گانے کی آواز پر تلاوت کرنا، یا ترعید، ترقیص، تطریب اور أعاجم کے مخصوص لہجات میں پڑھنا، کیونکہ قرآن مجید عربی ہے لہٰذا اس کو عربی لہجات کے مطابق ہی پڑھنا چاہیے۔ اسی طرح قرآن مجید کو یہودیوں و عیسائیوں کے مخصوص لہجات، جن میں وہ تورات و انجیل کی تلاوت کرتے ہیں، میں پڑھنا بھی حرام ہے۔ کیونکہ جب مطلقاً جمیع أمور میں ان کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے تو تلاوت قرآن مجید کے لہجات میں ان کی مشابہت اختیار کرنا بالاولیٰ حرام ہوگی۔ اسی طرح نوحہ کرنے والوں کی آواز کی مشابہت اختیار کرنا بھی حرام ہے، جو اللہ کی تقدیر پر ایمان نہیں رکھتے۔ ان من گھڑت جدید آوازوں میں سے ایک آواز روافض کی بھی ہے۔ جس کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے۔ روافض کی آواز سے مراد وہ مخصوص لہجہ اور انداز ہے جس کے مطابق وہ أیام عاشور میں پڑھتے ہیں۔ روافض کے لہجات کی حرمت دو اعتبار سے ہے۔ ۱۔ ایک تو وہ عجمی لہجہ ہے۔ ۲۔ وہ نوحہ کرنے والوں کی آواز کے مشابہ ہوتی ہے۔ [2] جب کوئی معلم یا مدرس ان مکروہ و حرام آوازوں کا عادی اور اہتمام کرتا نظر آئے تو سمجھ لیجیے کہ وہ معلم اتباع قرآن کے رستے سے ہٹا ہوا ہے۔
Flag Counter