Maktaba Wahhabi

40 - 82
((ھَذِہِ الْأَخْبَارُ کُلُّھَا تَدُلُّ عَلَی أَنَّ أَھْلَ الْقُرْآنِ یَنْبَغِیْ أَنْ تَکُوْنَ أَخْلَاقُھُمْ مُبَایَنَۃً لِأَخْلَاقِ مَنْ سِوَاھُمْ مِمَّنْ لَمْ یَعْلَمْ کَعِلْمِھِمْ، إِذَا نَزَلَتْ بِھِمُ الشَدَائِدُ، لَجَؤُوا إِلَی اللّٰہِ فِیْھَا، وَلَمْ یَلْجَؤُوْا فِیْھَا إِلَی مَخْلُوْقٍ، وَکَانَ اللّٰہُ أَسْبَقَ إِلٰی قُلُوْبِھِمْ، وَقَدْ تَأَدَّبُوْا بِأَدَبِ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّۃِ، فَھُمْ أَعْلَامٌ یُقْتَدَی بِفِعَالِھِم۔))[1] ’’مذکورہ اقوال و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ حاملین قرآن کا اخلاق دیگر لوگوں سے منفرد و ممتاز ہونا چاہیے۔ کیونکہ ان کا علم دیگر لوگوں کے علم سے افضل و اعلیٰ ہے۔ جب ان پر مشکلات آن پڑیں تو مخلوق کی بجائے اللہ خالق کاینات کی طرف رجوع کریں۔ اللہ ان کے قلوب کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اپنے آپ کو کتاب و سنت کے اخلاق عالیہ سے متصف کریں۔ کیونکہ لوگ انہیں روشنی کے مینار تصور کرتے ہیں اور ان کے افعال کی اقتدا کرتے ہیں۔ ‘‘ قرآن مجید کے معلم کو صرف طلبا سے سن لینے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ خود بھی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے اور اپنی منزل کو یاد کرنا چاہیے، ورنہ اس کا اپنا ضبط کمزور ہوجانے اور منزل بھول جانے کا اندیشہ ہے۔ عصر حاضر میں متعدد مدرسین اس کوتاہی کا شکار ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ دوسروں کے ضبط پر گہری توجہ بھی نہیں دے پاتے۔ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کے خادم عبدالصمد بن یزید البغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے فضیل رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ((اُنْزِلَ الْقُرْآنُ لِیُعْمَلَ بِہِ، فَاتَّخَذَ النَّاسُ قِرَائَ تَہُ عَمَلًا۔))[2] ’’قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے، لوگوں نے اس کی قراء ت کو عمل بنا لیا ہے۔‘‘
Flag Counter