Maktaba Wahhabi

104 - 135
دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’تلاوت کی رسم سے موافقت ضروری نہیں ہے، کیونکہ رسم سنت متبعہ ہے، کبھی تلاوت کے موافق ہوئی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔ جیسے ﴿وَجِایْئَ﴾ (الزمر:۶۹) میں یاء سے پہلے الف کے ساتھ، اور ﴿أَوْ لَأَاذْبَحَنَّہُ﴾ (النمل: ۲۱) اور ﴿وَلَأَ اوْضَعُوْا﴾ (التوبۃ: ۴۷) میں ﴿لَا﴾ کے بعد الف کے ساتھ مرسوم ہے۔ اور ان کی تلاوت رسم کے خلاف حذف سے ہوتی ہے۔‘‘ امام ابو شامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قراء ت نقل ہے، اس میں سے جو ظاہر خط کے موافق ہو جائے، وہ اقوی ہو جاتی ہے۔ صرف خط کی اتباع واجب نہیں ہے، جب تک نقل اس کی تائید نہ کرے۔‘‘[1] ۴۔ گولڈ زیہر کے دعویٰ میں تناقض ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحمن السید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’گولڈ زیہر نے اپنی بات ختم کرتے وقت، اپنے ہی قائم کردہ دعوے کو منہدم کر دیا ہے۔ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتا ہے کہ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا قرآن مجید کی کسی آیت کو کسی مطلوب معنی کی طرف پھیرا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: آج قرآن مجید کو کسی طرف بھی نہیں پھیرا جاسکتا، مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اسے قبول کرنے یا اس کو تبدیل کرنے کی کوئی رائے رکھیں، ان پر لازم ہے کہ وہ اس کی نصوص کا التزام کریں، اور اس کے سامنے اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائیں۔‘‘ اسی طرح اس کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا ہے اور ساتوں کے ساتوں حروف صحیح ہیں۔ اس کا کہنا یہ بھی ہے کہ ’’کسی بھی قراء ت کی صحت یا اس کے متحدی بہ معجز قرآن ہونے کا
Flag Counter