Maktaba Wahhabi

105 - 135
اعتراف اس وقت تک نہیں کیا جائے گا، جب تک وہ ثقہ روایت سے ثابت نہ ہو۔‘‘ [1] ۵۔ ان مصاحف کا باہمی اختلاف انتہائی قلیل ہے۔ اہل عراق اور اہل مدینہ کے مصاحف میں بارہ (۱۲) حروف، اہل عراق اور شام کے مصاحف میں چالیس (۴۰) حروف، اور اہل کوفہ و اہل بصرہ کے مصاحف میں صرف پانچ (۵) حروف کا اختلاف ہے۔ کتاب المبانی کے مقدمہ میں اس عنوان پر ایک مستقل فصل قائم کی گئی ہے، جس میں ان تمام اختلافات کی تعداد اور مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ اس فصل کا نام ((الفصل الخامس فی اختلاف المصاحف والقراءات والقول فی کیفیتھا)) ہے۔ ۶۔ متعدد ایسے حروف پائے جاتے ہیں، جن میں قراء کرام نے تمام مصاحف کے رسم کی مخالفت کی ہے۔ جیسا کہ پہلے امام ابو شامہ رحمہ اللہ کی شرح میں گزرا ہے۔ یا بعض مصاحف کے رسم کی مخالفت کی ہے، جن کی تفصیل رسم قرآن کی کتب کے اندر موجود ہے۔ ۷۔ مصاحف کے رسم کا اختلاف، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی قراءات کے اختلاف کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قراءات قرآنیہ مصاحف کے رسم کے اختلاف کی بنیاد پر قائم نہیں ہیں، جیسا کہ گولڈ زیہر اور اس کے متبعین کا خیال ہے۔ امام دانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’المقنع‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی سائل یہ سوال کرے کہ مصاحف میں ان حروفِ زائدہ کو لکھنے کا کیا سبب ہے؟ تو میں کہوں گا: کہ جب سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کو مصاحف میں ایک ہی صورت پر نسخ کروایا، اور اس کے رسم میں لغت قریش کو ترجیح دی تو بعض کلمات کے رسم میں اختلاط اور تبدیلی کا اندیشہ تھا، جسے آپ نے مختلف مصاحف میں تقسیم کر دیا، بعض میں حذف کر دیا تو بعض میں ثابت رکھا، تاکہ امت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان
Flag Counter